کم از کم اجرت کے قانون پر آج تک عمل نہیں ہوا ،لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانا پڑے گا

553

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) کم ازکم اجرت کے قانون پر آج تک عمل نہیں ہوا‘ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانا پڑے گا‘ مسائل کے حل کے لیے محنت کشوں کو نبی کریمؐ کے پرچم تلے جمع ہونا ہوگا‘ مفاد پرستی نے نظریاتی کشمکش کی جگہ لے لی‘ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے متحد ہونا ہوگا‘ حکمرانوں کے دعوئوں کے باجود مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے‘ یکم مئی پر دیگر طبقات کو چھٹی ملتی اور مزدور کام کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،نیشنل آرگنائزیشن آف ورکنگ کمیونٹیز کے رہنما مرزا مقصود، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان اور ویمن ورکرز الائنس کراچی کی رہنما رابعہ چوہان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’یوم مئی پر مزدوروں کی کیا خواہشات ہیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ ہر سال عالمی یوم مزدور پر حکمران بیانات دیتے ہیں‘ دانشور مضامین لکھتے ہیں‘ مزدور مظاہرے کرتے ہیں لیکن مزدوروں کے مسائل و مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے‘ کم از کم تنخواہ کا اعلان ہوجاتا ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا‘ سوشل سیکورٹی، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کے ادارے موجود ہیں مگر مزدور ان میں رجسٹرڈ نہیں‘ لیبر قوانین موجود ہیں لیکن ٹریڈ یونینز کا حق چھین لیا گیا ہے‘ مزدور علاج سے محروم ہیں‘ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں‘ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے‘ گزر بسر نہیں ہو رہا‘ مزدور جدوجہد کی سکت نہیں رکھتے اور نام نہاد مزدور لیڈر مفادات کے لیے سرگرداں ہیں‘ ایسے میں جدوجہد کا راستہ کھلا ہے‘ محنت کشموجودہ ظالمانہ سرمایہ داری، جاگیرداری اور افسر شاہی کے ٹرائیکا کو توڑ کر اسلام کے نظام رحمت کے لیے جدوجہد کریں۔ مرزا مقصود نے کہا کہ یوم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے‘ جو شکاگو کے محنت کشوں کی لازوال جدوجہد سے عبارت ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کو کام کے اوقات کار ملے‘سرمایہ کاروں نے محنت کی طاقت کو تسلیم کیا‘ محنت کشوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوا‘ عالمی مزدور تحریک کا آغاز ہوا‘ عالمی ادارہ محنت کے قیام کی بنیاد پڑی‘ سہ فریقی مشاورت کی اہمیت اُجاگر ہوئی اور عالمی طور پر مزدوروں کے معاوضہ، شرائط ملازمت، صحت و سلامتی، امتیاز کے خاتمے، بچوں سے محنت کو ممنوع قرار دینا اور عورتوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا۔ ضرورت ہے کہ پاکستان کے محنت کش ہر قسم کے امتیاز کو رد کرتے ہوئے بطور مزدور اپنے حقوق کے لیے متحد ہوں‘ یہی راستہ غربت کے خاتمے، جمہوریت کے نفاذ، پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے اور دنیا کے درمیان خود مختار بننے کا ہے۔ ظفر خان نے کہا کہ مزدور آج جتنا مجبور اور مفلوک الحال ہے‘ اس سے پہلے اتنا کبھی نہیں تھا اور اس کی بنیادی وجہ مزدور طبقے کی مختلف گروہوں میں تقسیم اور باہمی انتشار ہے‘ یکم مئی ہر سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے‘ یکم مئی کو دیگر طبقات کو تو ایک دن کی چھٹی مل جاتی ہے مگر محنت کش اس بات سے لاعلم اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لیے اس دن بھی مزدوری کررہا ہوتا ہے‘ ایک وقت تھا کہ مزدور دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھا اور سرخ و سبز کے نعرے مارتا تھا مگر اس وقت بھی اس کشمکش میں اس کا کچھ نہ کچھ بھلا ہوجاتا تھا‘ مگر اس نظریاتی کشمکش کے خاتمے کے بعد مفاد پرستی نے اس کی جگہ لے لی ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروں کو متحد کیا جائے اور پاکستان کے محنت کش کو نبی کریمؐ کے پرچم تلے جمع کیا جائے‘ اس کے علاوہ مزدور کے حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے‘ نبی مہربانؐ نے فرمایا کہ’’ محنت کش اللہ کا دوست ہے، جو تم کھائو وہ اس کو کھلائو، جو تم پہنو وہ اس کو پہنائو، مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘۔تمام محنت کش ملک میں متحد ہو کر نظام کی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔رابعہ چوہان نے کہا کہجن ممالک میں انتہائی سخت گیر آمریت نافذ ہے ان کو چھوڑ کر دنیا کے سبھی ممالک میں ہر صنعتی شعبے میں مزدور تنظیمیں بھی موجود ہیں‘ عالمی سطح پر مزدوروں کی اجرتوں اور حالات کے حوالے سے مقامی اور بین الاقوامی قوانین اور معیارات بھی موجود ہیں‘ دوسرے لفظوں میں محنت کشوں کے حقوق عالمی ضمیر کا ایک مستقل اور غیر متنازع حصہ بن چکے ہیں‘ اس کے باوجود اس امر کی ضرورت باقی ہے کہ مزدوروں کے حقوق میں کار فرما اصولوں کو سمجھا جائے۔ مزدوروں کی جدوجہد کے پس منظر سے آگہی پیدا کی جائے تاکہ آئندہ منزل کا درست تعین کیا جاسکے۔