وبائیں صرف تیسری دنیا کا مقدر؟

404

کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کرنے کے بعد اب کسی حد تک سکون کا سانس لیا ہے تو کئی چھوٹے اور کمزور ممالک کی جان میں جان آئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زندگی معمول پر آگئی ہے۔ بیش تر ممالک نے کورونا کی روک تھام سے متعلق تمام ایس او پیز ختم کردیے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا نے تو رخصت لی ہے مگر اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم مساوات نے رخصت ہونے کا نام بھی نہیں لیا۔ دو برس سے اس وبا نے پوری دنیا کو حیران و پریشان کیا۔ بڑے ممالک نے تو معاملات کو کسی نہ کسی طور قابو میں کرلیا مگر ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا رہنا دوبھر ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں اُنہیں عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لینا پڑے تاکہ معیشت متحرک رہے۔ اس کے نتیجے میں اُن پر ادائیگیوں کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔
کورونا کی وبا جب شروع ہوئی تھی تب اس کی روک تھام کے نام پر جو ایس او پیز سامنے آئے تھے ان کے حوالے سے ابتدا ہی سے شکوک کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ترقی پزیر اور پس ماندہ دنیا کے مبصرین کہتے رہے ہیں کہ یہ کوئی سازش ہے جس کا بنیادی مقصد دنیا کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزارنا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا نے بظاہر اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ تیسری دنیا کے جو ممالک تھوڑا بہت ابھرنے کی تیاری کر رہے تھے وہ اب بے دم سے ہوچلے ہیں۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معیشتوں کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ کورونا کی وبا کو قابو میں کرنے کے نام پر لوگوں کے لیے گھر سے نکلنا بھی دوبھر کردیا گیا۔ کورونا کی وبا پر قابو پانے کے دعووں کے بعد ترقی یافتہ دنیا میں تو سب کچھ معمول پر آتا جارہا ہے مگر پس ماندہ ممالک تو اب تک مسائل کی چَکّی میں پس رہے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور ابھرنے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بات غلط نہیں۔ جن معیشتوں کا حال پہلے ہی بہت بُرا تھا، کورونا کی وبا نے اُن پر تو قیامت ہی ڈھادی ہے۔ ایسے میں یہ کس طور سوچا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک آسانی سے اپنے آپ کو بحالی کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوں گے؟
کورونا کی آمد سے بہت پہلے تپِ دق، کینسر، ایڈز، ملیریا، ذیابیطس اور دیگر بہت سی بیماریاں ترقی یافتہ دنیا کے لیے بہت پریشان کن تھیں۔ ان میں سے کئی بیماریوں پر قابو پانے میں یہ ممالک بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں مگر تیسری دنیا کے ممالک تو اب بھی اِن الجھنوں کا شکار ہیں۔ ایشیا اور افریقا میں ملیریا اور ڈینگی بخار آج بھی بہت بڑی وبا کا درجہ رکھتے ہیں۔ افریقا میں ملیریا اور دیگر موسمی وباؤں کے حوالے سے صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ ایسے میں کورونا کی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی الجھنوں نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن اور دیگر ایس او پیز کے باعث دنیا بھر کی معیشتیں متاثر ہوئیں۔ یہ کیفیت افریقی ممالک کو بھی شدید الجھن کا شکار کرگئی ہے۔
بہت سی بیماریوں پر ترقی یافتہ ممالک نے اس قدر قابو پالیا ہے کہ یہ تمام بیماریاں اب تیسری دنیا کے ممالک تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ صحت ِ عامہ کا معیار بلند رکھنے کے نام پر ترقی یافتہ دنیا نے جو ایس او پیز مقرر کیے ہیں اُن کا ایک مقصد تیسری دنیا سے لوگوں کی آمد پر قابو پانا بھی ہے۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش اور سکونت اختیار کرنے کی خاطر ترقی یافتہ دنیا کا رخ کرنے والوں کو اب کئی طرح کی الجھنوں کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں پس ماندہ ممالک سے ترقی یافتہ دنیا کی طرف نقلِ مکانی خاصی کم ہوگئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا اندازہ بہت حد تک درست ہے کہ کورونا کی وبا دنیا کو تقسیم کرنے کی خاطر تھی تاکہ ترقی یافتہ دنیا خود کو الگ تھلگ اور زیادہ خوش حال رکھ سکے۔
ترقی یافتہ ممالک نے کورونا کی ٹیسٹنگ اور علاج کے نام پر فنڈنگ میں بھی غیر معمولی کمی کردی ہے۔ بیش تر ترقی یافتہ ممالک میں کورونا سے متعلق فنڈنگ اب برائے نام رہ گئی ہے۔ ٹیسٹنگ اور ٹریکنگ کا کام رک سا گیا ہے۔ جب وبا کا ڈھول پیٹا جارہا تھا تب ترقی یافتہ دنیا نے بھی بہت بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور ٹریکنگ کا اعلان کیا تھا۔ اب یہ سب کچھ تھم چکا ہے۔ سوئس حکام کا کہنا ہے کہ ملک گیر سطح پر کورونا ٹیسٹنگ ممکن نہیں۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ اب اس کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی کیونکہ وبا پر بہت حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔ طبی تعلیم کے کئی برطانوی اداروں نے کورونا کی روک تھام کے لیے جو پروگرام شروع کیے تھے وہ بھی اب بند کردیے گئے ہیں۔
امریکا میں ایوانِ صدر نے اعلان کیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافے کے باعث اب اینٹی وائرل پروگرام اور صحت ِ عامہ سے متعلق دیگر افعال کے لیے زیادہ فنڈنگ ممکن نہیں رہی۔ کانگریس سے 22.5 ارب ڈالر کے خصوصی پیکیج کی سفارش کی گئی ہے تاہم ری پبلکن پارٹی اس پیکیج کے حق میں دکھائی نہیں دیتی۔ ری پبلکنز شروع ہی سے دفاعی بجٹ کو اہمیت دیتے آئے ہیں۔ میری لینڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے انسٹیٹیوٹ آف ہیومن وائرولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر نادیہ سیم اگوڈو کہتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں صحت ِ عامہ یقینی بنائے رکھنے کے لیے کی جانے والی فنڈنگ کا اثر پوری دنیا پر مرتب ہوگا۔ وباؤں کی روک تھام لازم ہے مگر ترقی یافتہ دنیا بظاہر طے کرچکی ہے کہ اب اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے گی۔ یہ کیفیت شکوک کو جنم دے رہی ہے۔ کہاں تو اس قدر شور مچایا جارہا تھا اور کہاں یہ گریز! وہ کہتی ہیں ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، ہماری بہت سی پالیسیوں کا پس ماندہ ممالک پر نمایاں حد تک اثر مرتب ہوکر رہتا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا میں کورونا سے متعلق فنڈنگ روکے جانے پر پس ماندہ ممالک میں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ ان ممالک کو ترقی یافتہ دنیا سے فنڈنگ نہیں ملے گی۔ اس کے نتیجے میں کورونا سے متعلق تحقیق کمزور پڑے گی۔ دیگر وبائی امراض کی روک تھام سے متعلق اقدامات بھی کمزوری کا شکار ہوں گے اور یوں پس ماندہ ممالک کے لیے مختلف وباؤں کا شکار ہو رہنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ افریقا میں کورونا کی وبا پر قابو پانے کے اقدامات نیم دلانہ رہے ہیں۔ وہاں اب تک 20 فی صد آبادی کو صرف ایک خوراک مل سکی ہے۔ افریقا دوسری بہت سے وباؤں کا بھی اسیر رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے طے کرلیا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کو وباؤں کی نذر ہونے دینا ہے۔ کورونا کی وبا کے ذریعے جو مقاصد حاصل کرنا تھے وہ انہوں نے کرلیے۔ اب انہیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ باقی دنیا کا کیا بنتا ہے۔
(بھارت کے روزنامہ ’’لوک سَتّا‘‘ کی 17 اپریل کی اشاعت میں شایع ہونے والے تجزیے کا ترجمہ۔)