جب سے سی پیک منصوبے پر گوادر میں کام شروع ہوا ہے اور بیجنگ میں 130 ممالک کی کانفرنس میں شاہراہ ریشم کو دنیا کے لیے تجارتی راہ داری بنانے کے منصوبے پر تمام ملکوں کا اتفاق ہوا ہے اور الحمدللہ پاکستان کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ بھارتی نیتائوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور وہ ہر قیمت پر خدا نخواستہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے حوصلے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف کل بھوشن یادو کیس میں پھانسی روکنے اور قونصلر رسائی دینے کے فیصلے سے مزید بڑھ گئے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھارتی تاجر کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ پاکستان کا موقف عالمی عدالت میں کمزور پیش کیا جائے گا تاکہ بھارت کو سفارتی سطح پر کامیابی حاصل ہو۔ درحقیقت ایسا ہی ہوا کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان میں چار سال سے ریگولر وزیر خارجہ موجود نہیں تھا اور وزارت خارجہ کا پورٹ فولیو بھی وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھا اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز دراصل اکائونٹس گروپ سے وابستہ رہے ہیں وہ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں تو کامیابی سے پیش کر سکتے تھے لیکن انہیں وزارت خارجہ کی ABCD نہیں آتی تھی اور وہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے احکامات پر عمل کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے تھے۔ پاکستان کا امیج پوری دُنیا میں جان بوجھ کر خراب کیا گیا تھا اور اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بھارتی جاسوس کل بھوشن یادو کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا تھا۔
دراصل بلوچستان میں سی پیک کو بھارت نے تباہ کرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را کو نہ صرف فری ہیند دے دیا تھا بلکہ اربوں روپے کے سیکرٹ فنڈز بھی دیے تھے تاکہ بلوچستان کے غیور عوام کو خود کش حملوں کے ذریعے یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں کو ان کی کوئی بھی فکر لاحق نہیں تھی اور وہ بلوچستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کے مظلوم عوام کو ستر سال سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ان کے مال و دولت پر غیر بلوچی عیش کر رہے ہیں اور بلوچستان کی ساری معدنیات، پٹرول، گیس، اعلیٰ قسم کے ہیرے و جواہر، قیمتی دھاتیں و پتھر اعلیٰ قسم کے ڈرائی فروٹس اور پھل کو عالمی مارکیٹ میں بیچ کر سارا روپیہ اسلام آباد اور پنجاب لے جایا جا رہا ہے اور گوادر سی پیک معاہدہ سے نہ بلوچستان کے عوام کو، نہ سندھ کے عوام کو اور نہ ہی خیبر پختون خوا کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا بلکہ یہ تمام پیسہ پنجاب کی ترقی پر لگے گا۔ اس قسم کے منفی پروپیگنڈے سے نہ صرف بوڑھے، جوان، عورتیں بلکہ اسکول و کالج کے معصوم جوانوں پر اثر ہوا تھا اور میاں شہباز شریف سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان جب گوادر کا دورہ کر رہے تھے تو گوادر کے اسکول میں معصوم بچوں نے ان سے یہی سوال کیا تھا کہ کیا بلوچستان کا پیسہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں میں لگ رہا ہے اور بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ وہی منفی پروپیگنڈہ ہے جو سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) میں بھارتی ایجنسی را نے بنگالیوں کے ذہنوں میں بٹھایا تھا۔
بلوچستان کو ماضی اور حال کے حکمرانوں نے ستر سال سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ صرف حب اور کوئٹہ میں صنعتیں لگی ہوئی ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں گیس اور پٹرول نکالنے کے لیے بھی غیر ملکی کمپنی نے باہر کے لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ پورے بلوچستان میں صنعتوں کا جال بچھانا چاہیے تھا، سرکاری ملازتوں میں مقامی بلوچ نوجوانوں کو ترجیح دینا چاہیے تھی۔ راقم الحروف نے ساڑھے 38 سال سرکاری ملازمت میں آڈٹ کے دوران پورے سندھ اور بلوچستان کا تفصیلی دورہ کیا تھا۔ بلوچستان میں عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کی تباہی میں سول بیورو کریسی کے ساتھ سابق اور موجودہ حکومت کے وزراء اعلیٰ اور وزراء ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار میں عالمی ریکارڈ توڑا ہوا ہے۔ کبھی انہوں نے کوئٹہ سے نکل کر بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت ضرورت اس مر کی ہے کہ بلوچستان کے گمبھیر مسئلے پر پالیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر بلوچستان کے عوام کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف جامع اسکیمیں تیار کی جائیں اور ایماندار اور فرض شناس افسروں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ قوم کا پیسہ صحیح جگہ پر خرچ ہو۔ دوسری طرف پاکستان کی خفیہ سول اور ملٹری کے اداروں کی محتاط طریقہ سے چھان بین کراکے ففتھ کالمسٹوں کو گرفتار کیا جائے اور ان ڈبل ایجنٹوں کو فوجی عدالتوں سے سزائے موت دی جائے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔ بین الاقوامی عدالت نے کلبھوشن یادو کیس میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ہے اس کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ اس کو سزائے موت دینے سے باقی ماندہ دہشت گردوں کا بھی صفایا کر دیا جائے۔ موجودہ وفاقی وزیر احسن اقبال سے بھرپور اُمید ہے کہ وہ سی پیک پروجیکٹ کے کام کو بحسن و خوبی انجام دے کر پاکستان کو خوشحالی سے ہمکنار کریں گے۔