عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے، چیف جسٹس

347

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے صدارتی ریفرنس کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ 63 اے کو شامل کرنے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنا تھا، 63 اے کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے، اس کے نتیجے میں ووٹ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کاسٹ ہوگا لیکن گنا نہیں جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے علی ظفر سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے، ووٹ شمار کرنا اور انحراف کرنا دونوں مختلف چیزیں ہیں، اگر سیاسی جماعت کی کوئی ہدایت ہی نہ ہو تو ووٹ گنا جائے گا یا نہیں، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ہدایات نہ ہونے پر بھی رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، آئین میں 63 اے شامل کرنے کا مقصد انحراف کے کینسر کو ختم کرنا تھا۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ پہلے سربراہ ہدایات جاری کرے گا، پھر ممبران کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرے گا۔

جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا ڈیکلریشن کی عدم موجودگی میں بھی ووٹ نہیں گنا جائے گا، اگر ووٹ گنا نہ جائے تو مطلب جرم ہی نہیں کیا، تریسٹھ اے میں بتایا گیا ہے کہ ووٹ تو کاسٹ کرلیں گے لیکن سیٹ چلی جائے گی، ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد پارٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا جواب لے گا، نوٹس کے بعد ملنے والے جواب سے پارٹی سربراہ مطمئین ہو کر شوکاز ختم بھی کر سکتا ہے۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد ہی پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سربراہ ووٹ کاسٹ ہوتے وقت بھی اسپیکر کوبتاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں پینل کوڈ نہیں کہ جرم ہو گیا ہے۔ تو لاش ملنے کے بعد ہی کارروائی ہو گی، آپ کہہ رہے ہیں بھٹو دور میں شامل کیے گیے ارٹیکل 96کی طرح اقلیت کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، قومی مفاد اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ووٹ کو نہیں گننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت اس کینسر کا علاج خود نہیں کر سکتی، سیاسی جماعتوں کو تکلیف ہے تو علاج کریں، ہمارے سامنے اکثر جماعتیں اپ کے موقف کے خلاف ہیں، آپ کیا توقع کررہے ہیں ہم اکثریت کو چھوڑ کر آپ کی بات مانیں گے، صرف ایک سیاسی جماعت منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو تحریری معروضات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

پاکستان مسلم لیگ ق نے علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے، جمہوریت کے چمپئن بننے والوں نے مینڈیٹ کے احترام کا معاہدہ کیا تھا، لیکن عملی طور پر جو کچھ کیا گیا وہ میثاق جمہوریت کیخلاف ہے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے، اسمبلی کی مدت تک ہی منحرف رکن نااہل ہو سکتا، ریفرنس میں پی ٹی آئی کہتی ہے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، ریفرنس سابق وزیراعظم کو عدم اعتماد سے بچانے کے لیے دائر کیا گیا تھا، عدالت نے اسمبلی بحال کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے پر جلد از جلد اپنی رائے دیں، ضمیر کے مطابق جو آئین کے تحت درست لگتا ہے وہ کرتے ہیں، دعا ہوتی ہے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک میں بہتری ہو۔

مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے اب کوئی مواد نہیں کہہ اراکین کیوں منحرف ہوئے، رشوت لینے کے شواہد ہیں نہ ہی یہ معلوم کہ ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے، رکن کیوں منحرف ہوا یہ شواہد دینا اسکا کام نہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کیا عدالت صرف سوال کی حد تک آئین کی تشریح کر سکتی ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ عدالت اپنا اختیار 184/3 میں استعمال کر سکتی ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے پارٹی سے بے وفائی روکنے کے لیے نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو میچیور جمہوریت کی طرف لیکر جانا ہوگا، جس کے لئے ضروری ہے قانون ساز سیر حاصل گفتگو کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عزت کا راستہ یہی ہے کہ منحرف رکن مستعفی ہو کر گھر جائے، سیاستدانوں کو قربانیاں دینی ہوں گی۔

عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔