اسلام آباد(نمائندہ جسارت+صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پارٹی سے انحراف کینسر اور حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں4 مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے، تاہم ضروری نہیں جو حاصل کرنا ہے وہ آرٹیکل 63 اے سے حاصل کریں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے، حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر یہ ہوتا ہے کہ جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارٹی سے انحراف پر نااہلی نہیں ہوتی، بے وفائی سخت لفظ ہے اس کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر نہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی، کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی، جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسز کا پابند ہے، ہر جماعت کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے، کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟۔فاروق نائیک نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں، ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بدیانتی پر نا اہل ہو جائے تو وہ اگلے الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جاسکتی، آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں آزاد اراکین ہونے ہی نہیں چاہییں ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت عدالت عظمیٰ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے، ایک سوال ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا گیا یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ پارٹی سے انحراف ہوا، اگر پالیسی کے خلاف ووٹ دے دیا تو عدالت کسی چیز کا تعین کرے گی؟۔رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کے ان سوالات کے جوابات جمعرات کو دوں گا۔ سماعت آج پھر ہوگی۔