پاکستانی سیاست تشدد کی جانب بڑھ رہی ہے

541

پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر پر تھپڑ مکے بال کھینچنے کے پر تشدد مناظر پوری قوم نے دیکھے ہیں۔ یہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پاکستانی سیاست روز بروز تیزی سے تشدد کی جانب بڑھ رہی ہے۔ روز ایسے واقعات کی ویڈیوز سامنے آتی ہیں جن میں ہم عوام اور سیاست دان برداشت کی حدوں کو پھلانگ کر ایک دوسرے پر دشام درازی کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس کے فوراً بعد بیت الحمزہ پر پی ٹی آئی کے ورکرز کی جانب سے چڑھائی اور اس پر عمران خان کی چاکنگ کی وڈیوز سامنے آئیں۔ جواب میں ایم کیو ایم حقیقی کی جانب سے ان کے دفتر اور جھنڈوں پر جوابی وار ہوا۔ اسی طرح کا واقعہ ملتان میں پیش آیا کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی ریلیاں آمنے سامنے آگئیں بیرون ملک احتجاج میں بھی پاکستانی ایک دوسری پارٹی کی حمایت میں لڑ پڑے۔ میریٹ ہوٹل والا واقعہ تو سب نے سوشل میڈیاپر بار بار دیکھا ہے۔ اس جنگ میں صحافی بھی شریک ہیں، نصراللہ ملک کو کوریج کے درمیان جس طرے پی ٹی آئی ورکرز کرنے گھیر ہوا تھا۔ اور مطیع اللہ جان جس جارحانہ انداز سے پی ٹی آئی کے لیڈروں کا پیچھا کرتے ہیں۔ وہ مناظر سب دیکھ رہے ہیں۔ ایک حاضر سروس میجر پر سعد رفیق کے بھائی نے اپنے گارڈ زکے ذریعے جو تشدد کیا ہے، اس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اور دیگر مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو پی ٹی آئی ورکرز نے گھریا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ مناظر بھی ہماری سیاست کے انحطاط کا اظہار ہیں۔
سوشل میڈیا پر جس طرح کا طوفان بد تمیزی برپا ہے وہ بھی ہماری عدم برداشت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اور اس کا سہرا تو ہمارے لیڈروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اس کا آغاز اپنے جلسوں جلوسوں میں تقریروں میں ایک دوسرے کے خلاف تضحیک آمیز جملوں سے کیا ہے۔ بلاشبہ ان میں عمران خان سب سے آگے ہیں، انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جس لب ولہجہ کا استعمال کیا، سیاسی رہنماؤں کو جن القابات سے نوازا، وہ اب زبان زد عام ہیں۔ جب پارلیمینٹ کا اسپیکر ویڈیو میں گالی دیتا سنائی دے۔ تو پھر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی محفلوں میں کیا کچھ نہیں کہا جارہا ہو گا۔ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن میں ایک دوسرے پر الزام اور گالی گلوچ نے ایسی صورت حال اختیار کی کہ بہت سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ موجودہ حالات میں بلاول اعتدال کی راہ پر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ شائستگی کا مظاہرہ کیا۔ اور اپنی مسکراتی تصویر کو دوام بخشا ہے۔ دوسری جانب ہم نے پارلیمانی روایات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے، تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ میں اسپیکرز، ڈپٹی اسپیکر کا اجلاس کو کنڈیکیٹ نہ کرنا، پارلیمانی روایات کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر صدر مملکت نے بھی اپنے عہدے کا پاس نہیں کیا۔ انہیں پارلیمانی روایات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اس بات پر بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ میاں شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں بیک وقت صدر عارف علوی، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، کی غیر موجودگی کی وجوہات کیا تھیں۔ سیاست میں مصنوعی شجر کاری برگ و بار نہیں لاتی۔ محکمہ زراعت جب بھی بے موسم شجر کاری کرتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
موجودہ سیاسی حالات میں تبدیلی جس انداز سے ہوئی، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد احتجاج کر رہی ہے۔ گو بظاہر منصوبہ ساز کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے سارے پتے بہت اچھے انداز میں کھیلے، سارے مہرے ان کے قبضے میں آخر تک رہے، آئین اور قانون کے تمام تقاضے بھی پورے کیے گئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کا اندازہ نہ کر پائے کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد اس تبدیلی کے خلاف سراپاحتجاج ہو گی۔ بس یہی منصوبہ سازوں کی سنگین غلطی ہے۔ عوام کا احتجاج بہت سے منصوبوں کو غارت کر سکتا ہے، بے نظیر بھٹو نے ایک انتخاب کو ’’انجینئرڈ‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں ہونے والے سارے انتخابات ’’انجینئرنک‘‘ کا شاہکار ہیں۔ ایک انجینئر منصوبہ ساز اگر منصوبہ بناتے وقت فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھے تو دیر بدیر اسے اپنے تخلیقی شاہکار کی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ تجربہ ہم نے عمران خان کو لا کر بھی کیا، اور اب اسے رخصت کر کے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے محکمہ زراعت نے مصنوعی فصلوں کی کاشت کے چکر میں اپنی بہت اچھی فصلوں کو تباہ و برباد کیا ہے، جس کا نقصان پاکستان اور اس کی عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی محب وطن، قومی سیاسی جماعتوں کو ایک منصوبے کے تحت ٹھکانے لگایا گیا۔ جماعت اسلامی جیسی محب وطن، آئین اور حق کے ساتھ کھڑی ہونے والی جماعت کو دانستہ منظر سے ہٹایا گیا اے این پی کو ختم کر دیا گیا، مسلم لیگ کے حصے بخرے کر دیے، پیپلز پارٹی کو حقیقی قیادت سے محروم کر دیا گیا اور ایک قومی جماعت کو تراش خراش کر ایک صوبے تک محدود کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک قومی سیاسی جماعت بنانے میں ناکام رہے۔ علاقائی، لسانی، فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ ملا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں محکمہ زراعت نے ’’چار سیاسی جماعتوں کی قیادت کی تبدیلی کے اشارے دیے۔ ان میں پیپلز پارٹی مائنس آصف علی زرداری، ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین، جماعت اسلامی مائنس منور حسن، مسلم لیگ مائنس نواز شریف کا فارمولہ دیا گیا۔ جماعت اسلامی میں تو یہ تبدیلی پارٹی انتخابات کے نتیجے میں انجام پائی، آصف زرداری نے اس پر ذرا بہادری دکھاتے ہوئے کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے‘‘ یہ بیان دیکر انہیں دبئی میں پناہ لینی پڑی۔ اور معافی تلافی کر کے جان چھوٹی اور پھر انہیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے، قیادت بلاول کے حوالے کردی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین نے بھی مزاحمت کی، راتوں کو اچانک کارکنوں کو نائین زیروبلا کر، چینل پر لائیو فوج کے جرنیلوں کو برابھلا کہا لیکن بالآخر انہیں بھی ہیرو سے زیر وکا سفر کرنا پڑا۔ آج ایم کیوایم کی ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ نشانہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ واویلا اور شور میں نواز شریف نے ڈالا۔ وہ وزیر اعظم تھے، انہیں کسی صورت یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ وہ وزیراعظم کا منصب چھوڑ دیں۔ اور اس کے لیے پارٹی سے کسی اور فردیا شہباز شریف کو آگے لے آئیں۔ انہوں نے مجھے کیوں نکالا کا رولا ڈال کر سیاپا کیا۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا۔ انہیں ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ کھانے کے بعد آج اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا ساڑھے تین سال کا دور اس وقت شروع ہوا، جب سب ’’ایک پیج‘‘ پر تھے۔ بی بی سی کے آصف فاروقی نے 2018 میں ایک انٹر ویو کیا، جس میں عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس حکومت کے لیے افراد تیار نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے انٹرویو میں سے اس حصے کو نکلوانے کی کوشش کی۔ یہیں سے آصف فاروقی اور عمران خان میں تصادم شروع ہوا۔ اور اس کا انجام 10 اپر یل کی وہ رپورٹ ہے، جو بنی گالا میں ہیلی کاپٹر اترنے کی داستان پر مبنی ہے۔ عمران خان واقعی حادثاتی طور پر آئے تھے یا لائے گئے تھے۔ اس پر حتمی رائے تو نہیں دی جاسکتی لیکن ان کے ساتھیوں نے ملک کی معیشت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔
عمران خان کے ساتھی بار بار اس کا اعتراف کرتے تھے کہ انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔ آئی ایس آئی چیف، اور کور کمانڈر پشاور کے تقرر کا وقت آیا اور چیف آف اسٹاف کی ریٹائر منٹ اور ان کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ سامنے آیا۔ عمران خان اس فائل کو ٹالتے رہے۔ جب کبھی ان سے پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے۔
ان کی ہمدردی پشاور والوں سے جڑی تھی، اور ان کو ’’فیض کا چشمہ‘‘ وہیں سے بہتا نظر آرہا تھا۔ گزشتہ چار ماہ میں اس کھیل میں بہت سے پرانے اور نئے کھلاڑی شامل ہوئے، کپتان کو سیاست کے اس کھیل کی سمجھ بہت دیر میں آئی، اس وقت تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا، بیرونی طاقت خصوصاً امریکا کا ہماری سیاست میں عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے، امریکا ہماری فوج کی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی میں بھی بہت حصہ رکھتا ہے، افغانستان کی جنگ، پھر ’’وار اینڈ ٹیرر‘‘ اتحادی فوجوں کی سپلائی لائین کے طور پر بھی ہمارا امریکا سے بہت گہر ارابطہ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکا کی دیدہ دلیری اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے تمام سفارتی حدود کو پامال کر دیا۔ اب عمران خان سڑکوں پر ہیں اور عوامی جلسوں میں پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ’’میرا جرم کیا ہے‘‘۔ پاکستان کی سیاست میں نہ کوئی آئین ہے، نہ کوئی قانون، نہ ہی ہماری عدلیہ اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ایسی ہیں کہ ان کے ماضی کی درخشندہ روایات ہوں، اس لیے ایک بے یقینی کی صورت حال ہے۔ اور لوگ کسی اچھی بات پر بھی مشکل ہی سے یقین کرتے ہیں۔ ہمیں تو ہر آن بس کہانیاں درکارہیں۔ نئی نئی کہانیاں جن سے ہم اپنادل بہلا سکیں۔