کراچی ( تجزیاتی رپورٹ : محمد انور ) مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے پیر کوحلف اٹھا کر عہدہ سنبھال لیا۔اگرچہ شہباز شریف سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے نتیجے میں آئین کے تحت وزیراعظم بنے ہیں، تاہم وہ تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد ایک متنازع وزیراعظم کہلائیں گے۔ شہباز شریف کو بطور چیلنج ایک ایسی حکومت سنبھالنا ہوگی جو 10 اتحادی جماعتوں پر مبنی ہوگی اور اسے کسی بڑی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ موجودہ صورتحال سے اس بات کا خدشہ ہے کہ اپنی ہیئت اور ضرورت کے مطابق شہباز شریف حکومت بنا ہی نہیں سکیں گے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت کے قیام کے لیے10 جماعتوں کے اتحاد میں صدر کے عہدے کے لیے اختلاف پیدا ہو رہا ہیں ، کیونکہ صدر مملکت کے لیے آصف علی زرداری خود خواہش مند ہیں جبکہ جے یو آئی ف اپنے رہنما مولانا فضل الرحمن کو صدر کا امیدوار نامزد کرنا چاہتی ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ منتخب صدر مملکت عارف علوی وزیراعظم سے حلف نہ لینے کا عندیہ دیکر مختصر ایام کے لیے رخصت پر چلے گئے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی نے منتخب وزیراعظم شہباز شریف سے حلف لیا۔ اس طرح بھی شہباز شریف منتخب صدر کے ناپسندیدہ وزیراعظم کہلائیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے انتخاب کے باوجود سیاسی صورتحال غیر مستحکم اور غیراطمینان بخش نظر آرہی ہے۔اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کے سابق جسٹس اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس،ماہر آئین اور عام لوگ اتحاد پارٹی کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ احمد کا کہنا ہے کہ صورت حال بہت خراب ہے مجھے پہلے ہی سے اس کا اندازہ تھا اس لیے الیکشن کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک انصاف کے سب اراکان اسمبلی مستعفی ہوجائیں تو نئے الیکشن کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔