منڈا گلاں تے سونیاں کردا سی

463

ماسی تاجاں نے اپنی بیٹی کا رشتہ جس آدمی سے طے کیا اس کے متعلق مسلسل شکایات اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ کوئی کہتا ’’ماسی! تیرا ہونے والا داماد چور لٹیرا ہے‘‘ کوئی بتاتا کہ وہ شرابی ہے اور کسی نے اسے جوا کھیلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا۔ ماسی تاجاں سب کی باتیں ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے نکال دیتی۔ بتانے والے پیٹتے رہ جاتے۔ وہ سمجھتے کہ ماسی جان بوجھ کر اپنی بیٹی کو ڈبو رہی ہے لیکن جب ماسی نے اپنی چپ کا روزہ توڑا تو ایک ہی بات بولی ’’ایدے وچ برائیاں نے تے فیر کی ہویا، کوئی گل نئیں، منڈا گلاں تے سونیاں کردا اے ناں‘‘ (اس میں برائیاں ہیں تو پھر کیا ہوا، کوئی بات نہیں لڑکا باتیں تو پیاری کرتا ہے ناں)۔
یہی معاملہ ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کا رہا ہے۔ جس نے اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کا قوم کو لالی پاپ دیا۔ اس کی پہلی تقریر سنتے ہی لوگوں کی آنکھیں خوشی سے نم ہو گئیں۔ وہ اپنے آپ کو چودہ سو سال پچھلے مدینہ منورہ میں تصور کرنے لگے جہاں زکوٰۃ دینے والے جھولیاں بھر بھر کر کھڑے تھے لیکن لینے والا کوئی نہ تھا۔ ہر طرف عدل وانصاف اور امن و امان کی فضا قائم تھی۔ عمران خان کی خاطر جن بیٹوں نے اپنے باپوں کی سیاسی مخالفت کی تھی ان کے سر بھی فخر سے بلند ہوگئے اور باپ شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دینے لگے کہ ہم نے ایسے ہی بے جا اس بندے کی سیاسی مخالفت کی۔ یہ تو پاکستان کو صحیح معنوں میں نیا پاکستان بنانے آیا ہے۔ ماسی تاجاں کی طرح ہم سب لوگ بھی اس کی باتوں سے متاثر ہو گئے کیونکہ اس کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا کہ اس شخص کے قوم سے کیے گئے وعدے چند دنوں ہی میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ شروع میں چند دن سادگی کا ڈراما کیا گیا تو ہم سمجھے کہ شاید ہم خوش قسمتی سے خلفائے راشدین کے دور میں پہنچنے والے ہیں۔ بس تھوڑے دن بعد، بس تھوڑے دن بعد ہی ہمارے حالات سدھر جائیں گے۔ ہمارا ملک سپر پاور بننے کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔ اب دنیا والے منہ اٹھا اٹھا کر پاکستان کی طرف حسرت سے دیکھیں گے اور دل میں خواہش رکھیں گے کہ کاش! ہمیں بھی اس ملک کی قومیت مل جائے اور کچھ نہیں تو روز گار کی تلاش میں ادھر عازم سفر ضرور ہوں گے کیونکہ ہمارا وزیراعظم ہمیں باتیں ہی اتنی پیاری سناتا تھا۔
گزرتے دنوں کے ساتھ کچھ لوگ ملکی حالات کے نہ بدلنے اور مہنگائی مسلسل بڑھنے پر شکوہ کناں بھی ہونے لگے مگر اس کی باتوں کے سحر میں کھوئے لوگ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر شکوہ کرنے والوں کو چپ رہنے کا اشارہ کر دیتے اور آئندہ حالات بہتر کیا بہترین ہونے کا عندیہ دیتے لیکن چار سال گزرنے کے باوجود وزیراعظم کا کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہ ہوسکا۔ نہ لوگوں کو گھر ملے، نہ روزگار اور نہ ہی نوکریاں، بلکہ سرکاری نوکریوں کے دروازے ان پر بند ہی ہو گئے۔ کسانوں کو ریلیف ملنے کے بجائے زرعی مصنوعات مزید مہنگی ہوگئیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی کھاد کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ ڈالر ڈبل قیمت کا ہو گیا بلکہ پاکستان کی کرنسی تو ہر ملک کی کرنسی کے مقابلے میں تیزی سے ہلکی ہوئی۔ بجلی، گیس، پٹرول، تیل، اجناس، یعنی ہر چیز کی قیمت بڑھی۔ ملک کہاں سے کہاں چلا گیا جب کہ ہم اپنے وزیراعظم کی پیاری پیاری باتوں کے سحر میں ہی کھوئے رہے۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کے مقدس اور بابرکت الفاظ سے تقریر شروع کرنے والے کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے یہ طارق بن زیاد سے گٹھی لے کر پیدا ہوا ہے، سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا عزم، بلند حوصلہ اور فتوحات کے لیے پرجوش ہے، محمد بن قاسم کی مثال اس خطے میں پھر قائم کر دے گا، لیکن ہمارا یہ خیال، خیال ہی رہا۔ وطن عزیز میں سود، شراب، جوا، قمار بازی، ڈاکا زنی، چوری چکاری، بے ایمانی، دھوکا دہی، ملاوٹ، رشوت، کچھ بھی ختم تو کیا کم بھی نہ ہوا بلکہ ان برائیوں کا تناسب بڑھا۔ اس کی سیاست کے میدان میں کی گئی 26 سال کی جدوجہد کا اختتام اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی جیسے ڈراؤنے خواب پر ہوا۔ یوں یہ ملکی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ہٹائے جانے والا پہلا وزیراعظم بنا۔
عمران خان کے جانے سے اب قوم خوشیاں منا رہی ہے، لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں، وہ نئے پاکستان سے پھر دوبارہ پرانے پاکستان میں لوٹ جانے پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ اب نئے آنے والے وزیر اعظم کو اس میں عبرت کا پہلو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قوم جہاں کسی کو سروں پر بٹھاتی ہے وہاں امیدوں پر پورا نہ اترنے والوں کو پٹخ کر نیچے بھی گراتی ہے۔ نیا وزیراعظم ہو سکتا ہے کچھ ایسے اقدامات کرے جس سے ڈالر سستا ہو یا مہنگائی کو کچھ کنٹرول کرے لیکن یہ تھوڑا بہت کام اپنی ویلیو بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ خلوص دل سے اپنے آپ کو پاکستان کا خادم سمجھتے ہوئے کرے۔ صرف اچھی باتیں ہی نہ کرے بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہو کر دکھائے اور یہ بات یاد رکھیں کہ تاریخ ہمیشہ اچھائی کو اپنے گود میں پناہ دیتی ہے۔ خلفائے راشدین اور اسلام کے دوسرے اہل اقتدار ہیرو جن کے نام سنہری حروف میں صرف مسلمانوں کے دلوں ہی میں نہیں لکھے بلکہ ان کا احترام اور پیروی غیرمسلم بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ظالم اور بے حس حکمران جن کا طرز حکمرانی انسانیت کی خدمت نہیں بلکہ صرف اپنی انا کی تسکین تھا آج انہیں کوئی ظالم اور کافر بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا اگر وہ کسی کو یاد آئیں گے بھی تو صرف برائی کی مثال کے لیے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستانی قوم حکمرانوں کی مسلسل دھوکا دیہیوں، وعدہ خلافیوں سے زخم خوردہ قوم ہوچکی ہے اور زخمی شیرنی پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ آنے والے وزیر اعظم کو اس قوم کے ساتھ سنبھل کر چلنا پڑے گا ورنہ انجام کار کے متعلق بھی سوچ کر رکھے۔