شاہراہ دستور نے کیا دیکھا

491

قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے مرحلے میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے ایوان میں انتہاء کی غیر یقینی اور ایوان سے باہر سخت کشیدگی کا ماحول تھا لمحہ لمحہ صورت حال تبدیل ہورہی تھی، پارلیمنٹ ہائوس، اور عدالت عظمیٰ جس شاہراہ پر واقع ہیں، اسے شاہراہ دستور کہتے ہیں، تاہم یہ شاہراہ سیاسی تاریخ میں کبھی شاہراہ دستور نہیں بن سکی، یہ بہت سے غیر آئینی اقدامات کی گواہ ہے، عدم اعتماد کی تحریک کے دوران بھی یہ کشیدہ ماحول کا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہوئی، ایوان میں صورت حال یہ تھی کہ ہر رکن قومی اسمبلی، چاہے اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے یا متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں سے، ہر کوئی اپنے چہرے پر پرچھائیاں لیے بیٹھا ہوا تھا، زبانیں خاموش تھیں تاہم چہرے بول رہے تھے، آنکھیں کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر لب اجازت نہیں دے رہے تھے، زبان تک آتی ہوئی بات حلق میں اٹک کر رہ رہی تھی، کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے، حالات یہ تھے کہ جوں جوں گھڑی کی سوئیاں رات بارہ بجے کے ہندسے کے قریب پہنچ رہی تھیں دل میں نجانے کیا کیا خیال آرہے تھے۔
اسلام آباد انتظامیہ، جس نے2014 میں عمران خان کے دھرنے کے وقت سے ایک فیصلہ لیا تھا کہ سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کی تھی یہ فیصلہ آج تک برقرار ہے، اسلام آباد کی سیکورٹی کے لیے چہار جہتی حکمت عملی بنائی گئی تھی اور یہ حکمت عملی آج بھی کام کر رہی ہے، پولیس کی مدد کے لیے پہلے ایف سی، پھر رینجرز ہیں اور پھر فوج، اور سب کی مدد کے لیے انٹیلی جنس ادارے، 9 اپریل عدالت عظمیٰ کے حکم پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا اور یہ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ تھا کہ عدالت کے حکم پر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا اور اس کے لیے ایجنڈا صرف یہ تھا کہ ایوان میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرائی جائے اور تحریک کامیاب ہوجائے تو نئے قائد ایوان کے انتخاب تک اجلاس جاری رکھا جائے، اس حکم کی تعمیل میں صبح ساڑھے دس بجے اجلاس طلب کیا گیا، 99 فی صد لوگوں کا خیال تھا کہ ادھر اجلاس ہوگا اور دوسرے لمحے تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ ہوجائے گی، مگر یہ سب کچھ پانے کے لیے پوری قوم کو رات بارہ بجے تک انتظار کرنا پڑا، تاہم پارلیمنٹ ہائوس کے باہر جو کچھ سارا دن ہوتا رہا یہ بھی ایک شہری تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
1996 میں قاضی حسین احمد پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا، اس وقت پورا ملک، خصوصاً پنجاب سے اسلام آباد آنے والے تمام راستے وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر نے کنٹینرز لگا کر بند کردیے تھے، قاضی حسین احمد رکاوٹیں توڑ پر مری روڈ پہنچے اور اگلے روز اسلام آباد کا رخ کیا، حالات اس وقت بھی انتہاء درجے کے کشیدہ تھے، مری روڈ پر قاضی حسین احمد پولیس کے لاٹھی چارج سے زخمی ہوئے اور چار کارکن پولیس فائرنگ سے شہید ہوئے، ہم نے اس پارلیمنٹ کے سامنے 1985 میں قومی، شریعت محاذ کے جلوس بھی دیکھے، قومی اسمبلی میں غلام اسحاق خان کے خطاب پر بے نظیر بھٹو کا گو بابا گو بھی دیکھا، اسی پارلیمنٹ میں تہمینہ دولتانہ، رائو قیصر اور دیگر مسلم لیگی ارکان اسمبلی کی پارلیمنٹ ہائوس کے اندر
سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں درگت بنتے بھی دیکھی ہے، لیکن اس قدر کشیدگی کی باوجود اسلام آباد میں رینجرز اور فوج طلب نہیںکی گئی تھی اور نہ ڈی چوک، اس وقت اسے پریڈ ایوینو کہا جاتا تھا، نہ ایمبولینس تھیں، نہ پارلیمنٹ ہائوس میں قیدیوں کو لے جانے والی پولیس وین، مگر اس بار تو حد ہی ہوگئی، پارلیمنٹ ہائوس، عدالت عظمیٰ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف میں سیکورٹی انتہائی سخت، ریڈ زون میں کمانڈوز تعینات، قیدیوں کی گاڑی بھی طلب، رات گئے عدالتیں کھل گئیں، اسلام آباد پولیس و انتظامیہ کے تمام افسران کی چھٹیاں منسوخ اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی کارروائی کا عمل اپنے حکم کی روشنی میں دیکھنے کے لیے عدلیہ متحرک، ائرپورٹس پر ہائی الرٹ، حکومتی شخصیات اورسرکاری افسران کے بغیراین او سی بیرون ملک سفرکرنے پر پابندی عائد، پارلیمنٹ ہائوس کو جانے کے لیے صرف ایک راستہ، مارگلہ ایوینو کھلا رکھا گیا، صبح چھے بجے اس شاہراہ پر پارلیمنٹ ہائوس تک ناکے ہی ناکے، پولیس اور رینجرز کا گشت، جگہ جگہ تلاشی کا ماحول، پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان اسمبلی کو جانا ہی تھا، میڈیا کو کوریج کرنی تھی، ارکان اسمبلی تو پارلیمنٹ ہائوس پہنچ گئے، میڈیا کے نمائندے رل گئے، شہر میں موسم کی حدت بھی ایسی کہ اپریل میں جون سے بڑھ کر گرمی اور روزہ بھی… تاہم میڈیا کے نمائندے کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ ہائوس پہنچ ہی گئے۔
یا اللہ یہ کیا ماجرہ تھا؟ یہ سب کچھ عین آخری لمحات میں کہ جب رات کے بارہ بجنے میں دس منٹ باقی رہ گئے، وزیر اعظم نے فیصلہ لے لیا، وزیراعظم ہائوس سے بنی گالا روانہ ہوگئے، جاتے جاتے آخری کام یہ کیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ وہ مستعفی ہوجائیں، اسپیکر نے استعفے کا اعلان کرکے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے ایوان مسلم لیگ (ن) کے رکن سابق اسپیکر ایاز صادق کے سپرد کردیا، جس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پرکارروائی ہوئی اور یوں اسلام آباد میں ماحول میں کشیدگی میں کمی آنا شروع ہوئی لمحہ لمحہ صورتحال تبدیل تبدیل ہوکر صبح فجر تک کہیں شاہراہ دستور دوبارہ دستور کے رنگ میں آئی رات بارج بجے سے آدھ گھنٹہ قبل تک قوی امکان تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی کارروائی نہیں ہوتی اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے توہین عدالت کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس حوالے سے گرفتاریاں کی جاسکتی ہیں، دوسری جانب اڈیالہ جیل میں بھی انتظامات مکمل تھے، لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ معاملہ سلجھ گیا اور یوں رات کو کھلی عدالتیں دوبارہ بند ہوگئیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، ججوں سمیت گھروں کو روانہ ہوئے اس تسلی کے ساتھ کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو رات بارہ بجے کے بعد ملک میں ایک نئی سیاسی تاریخ قرم کی جاتی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال نے رات 12 بجے دفاتر کھولنے کا حکم دے دیا تھا حکم عدولی کی صورت میں 12بج کر 5 منٹ پر کیس کی سماعت شروع ہوجانی تھی تاہم یہ سب کچھ رک گیا کہ وزیر اعظم بنی گالہ چلے گئے، اگلے روز اخبارات میں متعدد وزراء کی جانب سے یہ خبر شائع ہوئی کہ وزیر اعظم شائستگی کے ساتھ وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ گئے، ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو، تحریک انصاف کے وزراء تو ایک جانب کسی عام کارکن کی بات سے اختلاف کرکے کوئی جائے کہاں؟ ہم میں تو ہمت نہیں۔