اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ عدالت میں کسی بھی وقت فوری نوعیت کے مقدمات دائر کیے جاسکتے ہیں،چیف جسٹس فوری نوعیت کے کسی معاملے کو کسی بھی وقت سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
اس حوالے سے 9اپریل کو غلط انداز میںرپورٹ کیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 9 اپریل 2022 کی شام درخواستیں فائل ہونے کو غلط انداز میں رپورٹ کیا گیا اور بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ نوٹیفائی کیے گئے عدالتی اوقات کے بعد درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گیارہ نومبر 2019 اور 10فروری 2021 کو جاری کیے گئے سرکلرز میں عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد درخواستیں دائر کرنے کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے ۔ بطور آئینی عدالت اسلام آبادہائیکورٹ نے فوری نوعیت کے مقدمات کسی بھی وقت دائر کرنے کو یقینی بنایا ہے اگر فاضل چیف جسٹس اس امر سے مطمئن ہوتے ہیں کہ کوئی معاملہ فوری نوعیت کا ہے تو وہ اسے کسی بھی وقت سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق 9اپریل 2022 کو صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت ایک پٹیشن دائر کرنے کے بارے میں پوچھا۔ مندرجہ بالا سرکولرز صدر سپریم کورٹ بار کے نوٹس میں لائے گئے اس دوران کچھ دیگر پٹیشنز بھی پیش کی گئیں یہ تمام پٹیشنز چیف جسٹس کی رہائشگاہ پر بجھوائی گئیں۔
چیف جسٹس مطمئن تھے کہ نہ تو ان پٹیشنر پر کارروائی کا آغاز کرنا ضروری ہے اور نہ ہی جوڈیشل آرڈر جاری کرنے کی ضرورت ہے اس لئے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ جوکچھ سرکولرز میں کہا گیا ہے کہ فوری نوعیت کی کوئی بھی درخواست عدالتی نوٹیفائی وقت کے علاوہ کسی بھی وقت دائر کی جاسکتی ہے اور وہ درخواست سماعت کیلئے بھی مقرر کی جاسکتی ہے تاہم اس کیلئے چیف جسٹس کا حالات و واقعات سے مطمئن ہونا ضروری ہے ۔ عدالتی اعلامیہ کے ساتھ دونوں عدالتی سرکولرز کی کاپیاں منسلک کی گئی ہیں۔