عدالت عظمیٰ بدترین سیاسی بحران میں آئین کی بالا دستی یقینی بنائے،سراج الحق

339

لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ موجودہ بدترین سیاسی بحران میں آئین کی بالادستی کے قیام کو ممکن بنائے۔ اعلیٰ عدلیہ سے اپیل ہے کہ تمام غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کو ختم کر کے آزادانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے دوٹوک اور بروقت فیصلہ دے۔ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کرائی گئی متنازعہ انتخابی ترامیم ختم ہونی چاہییں۔ الیکشن ریفارمز کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی تجاویز کو مدنظر رکھا جائے۔ ملک تاریخ کے بدترین سیاسی، آئینی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آزادانہ،غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات نہ ہوئے تو مزید انارکی پھیلے گی اور طالع آزمائوں کو موقع ملے گا۔ غیر آئینی اقدامات کی وجہ سے پوری ریاست دائو پر لگی ہوئی ہے، عوام کنفیوژن میں مبتلا اور تمام نظریں عدالت عظمیٰ پر ہیں۔حیرانی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ہی حکومت کے خاتمہ پر جشن منا رہی ہے۔ اسلام آباد میں مہینہ بھر مفادات کا کھیل جاری رہا۔ قوم کو جاننا چاہیے کہ کن لوگوں نے پورے سیاسی نظام اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ حکمران اشرافیہ حکومت کرنا ذمہ داری نہیں انجوائے منٹ سمجھتی ہے۔ ملک پر مسلط حکمران اپنے آپ کو سیاسی برہمن اور عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں ملک میں اسلامی نظام کی بجائے ذاتی بادشاہتیں قائم کرنا چاہتی ہیں۔ جماعت اسلامی کا ایمان ہے کہ جب تک اسلامی نظام کی طرف اجتماعی سفر نہیں ہو گا، ملک میں اسی طرح کا کھیل تماشا جاری رہے گا۔ انسانیت کی کامیابی اللہ کے نظام کو اپنانے میں ہے۔ جماعت اسلامی فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دن رات ایک کر دیں۔ رمضان المبارک کا تقاضا ہے کہ صدقات و خیرات کو عام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کو تیز کیا جائے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنما مہر ظہور سپرا کی ملتان میں نماز جنازہ کے بعد میڈیا کے نمائندوں اور کارکنان جماعت اسلامی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک میں مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہا ہے۔ سبزیوں، پھلوں، آٹا، چینی، دالوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے پونے چار برسوں میں ملک کو ہر طرح کے بحران میں دھکیلا۔ وزیراعظم نے مدینہ کی ریاست کا نام لے کر اس کے برعکس اقدامات اٹھائے۔ ہم نے پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے ابتدائی سو دنوں میں یہ انتظار کیا کہ وہ مدینہ کی ریاست کی جانب ایک بھی قدم اٹھائے تو جماعت اسلامی ان کا سو قدم تک ساتھ دے، مگر پونے چار برسوں میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک معاشی کے ساتھ ساتھ اخلاقی تباہی کا بھی شکار ہوا۔ پی ٹی آئی نے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے قانون سازی کی۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکا کس لیے اُس حکومت کے خلاف ہے جس نے واشنگٹن کے پروردہ عالمی اداروں کی مسلسل پونے چار سال تک ہاں میں ہاں ملائے رکھی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کی پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وزیراعظم کو اگر کہیں سے خط ملا تھا تو اسے بروقت پارلیمنٹ اور قوم کو اس بارے میں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔جماعت اسلامی نے ایک بار نہیں بار بار امریکی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے حکمران غیر ملکی طاقتوں کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے اصل ذمے دار ہیں۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد انگریزوں کے نظام اور اس کے وفاداروں کا تسلسل رہا، ملکی وسائل حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے رہے اور عوام پر طرح طرح کے پہاڑ ٹوٹے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اسٹیٹس کو کو مضبوط کیا اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کیا۔امیر جماعت نے کہا کہ اسلامیان پاکستان اللہ کے دین کی طرف قدم بڑھائیں تاکہ ملک میں ترقی و خوشحالی آئے۔ اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے کہ انسان تب تک کامیاب نہیں ہو گا جب تک وہ ایمان لا کر صالح عمل نہیں کرتا۔ اسلامی نظام کا مطلب قانون کی حکمرانی کا قیام ہے ۔ جماعت اسلامی ایسے نظام کے لیے جدوجہدکر رہی ہے جس میں قانون کے سامنے کوئی بھی طاقتور نہ ہو۔ سودی معیشت کا خاتمہ ہو اور ملکی وسائل لوگوں کی فلاح اور بہبود پر خرچ کیے جائیں۔