فوری انتخابات کیسے ہوں گے؟

756

وزیراعظم عمران خان کے ’’سرپرائز‘‘ نے ملک کو سنگین آئینی بحران کا شکار کردیا ہے۔ جس قومی اسمبلی نے اْنہیں لیڈر آف دی ہاؤس چنا تھا اْس کو آناً فاناً تحلیل کر دیا اور اْس کے لیے ڈپٹی اسپیکر کی اْس رْولنگ کو جواز بنایا گیا جس کے تحت مبینہ بیرونی سازش کو تحریک عدم اعتماد کی وجہ قرار دیا گیا۔ حکومتی اقدامات کے بعد چیف جسٹس نے فوری طور پر از خود نوٹس لے کر عدالتی کارروائی شروع کردی ہے۔ بادی النظر میں عدالت عظمیٰ سے دو قسم کے فیصلوں کی توقع ہے۔ ایک یہ کہ ڈپٹی اسپیکر کی رْولنگ وزیراعظم اور صدر مملکت کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیدے یا پھر پی ٹی آئی حکومت کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عام انتخابات کے انعقاد کا حکم صادر کردے۔
ثانی الذکر فیصلہ کی صورت میں 90 دونوں میں عام انتخابات میں حصہ لینے پر تمام سیاسی جماعتیں مجبور تو ہو جائیں گی مگر سیاسی تقسیم اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ سب سے بڑا تنازع عبوری حکومت کی تشکیل پر ہوگا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنی اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھے ہیں اس لیے اپوزیشن وزیراعظم کا اتفاق نہ ہو سکے گا۔ اگر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں چلا گیا، تب بھی یہ سوال اْٹھے گا کہ تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے ارکان کی عدم موجودگی میں پارلیمانی کمیٹی کی کیا حیثیت ہے؟
دوسرا بڑا تنازع الیکشن کمیشن کے بقیہ دو ارکان کے تقرر پر ہو گا۔ تحلیل شدہ قومی اسمبلی کا سابق اپوزیشن لیڈر عارضی وزیراعظم الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کیسے کر سکتے ہیں؟ تیسرا بڑا تنازع الیکٹرونک مشینوں کے ذریعے ووٹنگ پر ہوگا۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے تحفظات کی موجودگی میں شاید یہ نہ ہو سکے گا۔ چوتھا بڑا تنازع سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ پر ہوگا جس کے لیے اب تک انتظامات ہو سکے ہیں نہ اپوزیشن جماعتیں اور نہ الیکشن کمیشن اس پر متفق ہوئے ہیں۔ اس پر بھی پھڈے کا امکان ہے۔
پانچواں بڑا تنازع 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے پر پیدا ہوگا جس کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام مراحل مکمل کرنے میں کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔ چونکہ اس معاملہ پر انتخابی اْمیدواران اور سیاسی جماعتیں انتہائی حساس ہوتی ہیں اس لیے مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے سے ایک اور بحران پیدا ہو جائے گا۔ چھٹا بڑا تنازع شفاف انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں کی تجدید پر اْٹھے گا۔ 2017ء کی مردم شماری کے بعد تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر انتخابی فہرستوں میں نئے ووٹرز کا اندراج ممکن نہ ہوسکا تو انتخابات کی قانونی و اخلاقی حیثیت کیا ہوگی جبکہ انتخابی قوانین کے مطابق انتخابی فہرستوں کا الیکشن سے 30 دن پہلے مکمل ہونا ضروری ہے۔
ساتواں بڑا تنازع پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے پیدا ہوگا۔ انتخابات 2018ء میں پورے ملک میں ایک لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن تھے جبکہ نئے انتخابات کے لیے کم از کم ایک ہزار پولنگ اسٹیشن مزید بنانے پڑیں گے۔ محدود وقت میں الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ نئے پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کے لیے کما حقہ اقدامات کر سکے۔ آٹھواں تنازع اْس وقت پیدا ہوگا جب قواعد و ضوابط کے مطابق واٹر مارک بیلٹ پیپر کی چھپائی نہیں ہو سکے گی جس کے لیے ملک کے اندر مطلوبہ کاغذ دستایب نہیں۔ بیلٹ پیپر کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے یہ کاغذ درآمد کرنا پڑے گا جس کے لیے وقت درکار ہو گا۔
نواں بڑا تنازع اس وقت پیدا ہوگا جب الیکشن ایکٹ کی دفعہ 14 کے مطابق الیکشن کمیشن ایک جامع ایکشن پلان نہیں دے پائے گا جو کہ انتخابات سے 4 ماہ پہلے جاری کرنا لازمی ہے۔ دسواں بڑا تنازع الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فوری انتخابات کے لین انتخابی عملہ کی ضروری تربتی اور انتخابی مواد کی بروقت فراہمی نہ ہو نے پر ہو گا جو ایک تقاضا ہے۔
گیارہواں بڑا تنازع اْس وقت پیدا ہوگا کہ جب آئین کے مطابق بلوچستان، پنجاب اور اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات موخر کر دیے جائیں گے۔ (صوبہ بلوچستان میں تو بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی ہوچکا ہے)۔ بارہواں بڑا تنازع قومی وبین الاقوامی این جی اوز کی جانب سے کھڑا کیا جائے گا کہ انتخابی فہرستوں میں صنفی فرق بہت زیادہ ہے یعنی رائے دہندگان کی فہرستوں میں مرد وخواتین کے درمیان وسیع تفاوت ہے جو انتخابی نتائج کو ناقص بناتا ہے۔
درج بالا حقائق کی بنا د پر عمران خان کا فوری انتخابات کرانے کا منصوبہ قابلِ عمل نظر نہیںآتا۔ اس لیے قومی انتخابات کو بامقصد اور معتبر بنانے کے لیے آئینی تقاضے پورا کرنا ضروری ہے۔