لاہور(نمائندہ جسارت) پنجاب کا نیا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار حمزہ شہباز اور حکومت کے نامزد کردہ امیدوار چودھری پرویز الٰہی نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔پیپلز پار ٹی کے حسن مرتضیٰ حمزہ شہباز کے تجویز کنندہ ہیں۔ حمزہ شہباز کے کاغذات نامزدگی متحدہ اپوزیشن نے جمع کرائے۔چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے راجا بشارت نے کاغذات جمع کرائے۔سیکرٹری آفس میں دونوں امیدواروں کے کاغذات کی اسکروٹنی کی گئی جس کے بعد حمزہ شہباز اور چودھری پرویز الٰہی کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے،کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت حمزہ شہباز خود بھی موجود تھے۔پنجاب اسمبلی نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب(آج ) اتوار 3اپریل کو کرے گی۔اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس آج اتوار دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کیا ہے جس میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔اسمبلی سیکرٹریٹ نے نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے اجلاس کے لیے ایجنڈا اورایس اوپیز جاری کردیے۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے کہاہے کہ نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج نہیں ہوگی، انتخاب کا شیڈول جاری ہوگا اورکوئی کارروائی نہیں ہوگی،وزارت اعلیٰ کے امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے ، اسپیکرکواختیارہے کہ وہ ووٹنگ (آج)اتوارکو کراتے ہیں یا کل پیرکو۔سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے کہا کہ نئے پنجاب اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجلاس کے لیے اسمبلی سیکرٹریٹ نے ایجنڈا اورایس اوپیز جاری کردیے۔ایجنڈے کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دن ارکان اسمبلی اپنا شناختی کارڈ اوراسمبلی کارڈ ساتھ لائیں۔ ارکان اسمبلی کے ساتھ مہمانوں کا داخلہ بند ہوگا۔ کوئی رکن اپنا موبائل فون اسمبلی میں نہیں لے جاسکے گا۔ایجنڈے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین ارکان اسمبلی اپنا بیگ ایوان میں نہیں لے جاسکیں گی۔علاوہ ازیںجہانگیر ترین گروپ نے اپوزیشن کے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز شریف کی حمایت کر دی جس کے بعد حمزہ شہباز کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے ۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے قبل حمزہ شہباز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جہانگیر ترین گروپ کے رہنما نعمان لنگڑیال نے وزارت اعلیٰ کے لیے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کی حمایت سے متحدہ اپوزیشن کے 188 ارکان بنتے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے لیے 186 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ ن لیگ کے 165، پیپلز پارٹی کے 7، 2 آزاد ارکان اور 14 ترین گروپ کے ملا کر مجموعی تعداد 188 ہو گئی ہے۔دوسری جانب چھینہ گروپ سمیت پی ٹی آئی کے 169 اور ق لیگ کے 10 ملا کر کل تعداد 179 ہے۔ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلی کے حوالے سے 2 آزاد ارکان، 1 ووٹ کے ساتھ چودھری نثار اور 1 ووٹ کے ساتھ راہِ حق پارٹی ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔دوسری جانب علیم خان گروپ کے پاس 4 یا 5 ارکان بتائے جاتے ہیں۔ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ علیم خان کا دعوی ہے کہ وہ 30 سے زائد ممبران سے مل چکے ہیں۔ادھرمسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ نے کہاہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے دیے گئے استعفے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہیں، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کو درست کریں جبکہ سیکرٹری سروسز اور چیف سیکرٹری پنجاب عثمان بزدار کے استعفے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو واپس لے کر عثمان بزدار سے قانون اور آئین کے تحت دوبارہ استعفا لیں۔