پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

441

آخری حصہ
خارجہ پالیسی: خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی عمران خان عدم حکمت اور غیرسفارتی طرزِ عمل کے باعث تنہائی کا شکار ہیں۔ ہر ظالم ملک کی طرفداری،کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر بزدلی اور کنارہ کشی، قومی کشمیر پالیسی پر پسپائی اور معذرت خواہانہ رویہ، افغانستان میں افغان عوام اور طالبان کی ناٹو فورسز اور امریکی جارحیت کے خلاف تین عشروں پر مشتمل صبر آزما اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں تاریخی کامیابی کے بعد حکومت کے قیام کے بعد انہیں تسلیم کیے جانے کے حوالے سے تذبذب اور غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہونا ہماری خارجہ پالیسی کی واضح ناکامیاں ہیں۔
امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال: دیگر محاذوں کی طرح گزشتہ چار سال کے دوران اور بالخصوص پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی داخلی صورتِ حال انتہائی خراب رہی۔ سیکورٹی اہلکاروں، مساجد پر دہشت گردانہ حملوں کی تازہ لہر نے کوئٹہ، بلوچستان کے دیگر علاقوں سمیت پشاور اور ملک کے بیش تر شہروں کو نشانے پر رکھا جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور املاک تباہ ہوئیں۔ اسٹریٹ کرائمز، چوری ڈکیتی کے واقعات کراچی، لاہور، راولپنڈی جیسے شہروں میں تو پہلے سے جاری تھے ہی لیکن اب یہ سلسلہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ جہاں آئے روز گاڑیاں، موٹر سائیکل، موبائل فون، دیگر قیمتی اشیا چھیننے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔
انتخابی اصلاحات: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی تشکیل کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کو مشاورتی کانفرنس کی دعوت دی۔ جماعت ِ اسلامی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پہلے بھی اپنی سفارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کراتی رہی ہے اور اس مرتبہ بھی اپنی اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اپنی گزارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گی۔ ریاستی اداروں کی سیاسی انتخابی عمل سے بے دخلی۔ ہر جائز، ناجائز حربوں، دولت کے بے دریغ استعمال اور جیت کے لیے جھوٹ، فریب اور جذباتی نمائشی ماحول پیدا کرنے سے اجتناب، جمہور کو فیصلہ کرنے میں آزادی اور عوام کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کا جمہوری کلچر مضبوط بنانا ہر سیاسی جماعت کا مطالبہ رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اس حوالے سے بھی غیرسنجیدہ اور غیر متعلق نظر آئی۔ بلکہ خود عمران خان کے وزیر باتدبیر الیکشن کمیشن سے اْلجھنے میں مصروف رہے۔ انتخابی اصلاحات اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی متفقہ تیاری ایک قومی اور عوامی ایشو ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا اس اہم قومی اور عوامی ایشو سے فرار بھی اس کی غیرسنجیدگی اور عدم تعاون کی واضح مثال ہے۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھاکر متفقہ انتخابی اصلاحات لانے کے بجائے خود عمران خان اور اس کے وزراء انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اُڑانے میں مصروف ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابی جلسوں میں شرکت سے منع کرنے کے باوجود عمران خان مسلسل ان جلسوں سے خطاب کرتے چلے آرہے ہیں، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن انہیں مسلسل جرمانہ کررہی ہے۔
نظامِ انصاف (عدلیہ) اور صحافت: اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی میرٹ اور اعتراضات، شکوک و شبہات سے پاک تقرری نظامِ عدل پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے کا باعث ہوگا۔ بنچ اور بار کے درمیان باہمی اعتماد و احترام پر مبنی تعلقات انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اور عام الناس میں اس کے اعتماد و احترام سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔ تاہم جب سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی ہے اس نے عدلیہ جیسے اہم آئینی ادارے کو بھی پسند نا پسند اور تعصبات کا شکار کردیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بے توقیری اور اُن کے فیصلوں پر حکومت کی طرف سے اعتراضات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت دیگر سابق حکمرانوں کی طرح عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس میں ناکامی پر سیخ پا۔ سستے، آسان انساف کے حصول کے لیے عدالتی نظام، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اصلاح، نظامِ عدل کی اصلاحات وقت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔
اِسی اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا عمل خود عدلیہ کے لیے سوالیہ نشان۔ فردِ جرم کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پامال کیے گئے۔ صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اِس مقدمہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے حوالے سے نرمی برتنے کی اپیل کی گئی۔
زراعت کی زبوں حالی: پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار میں زراعت کا حصہ کم و بیش 30 فی صد ہے۔ ملکی آبادی کا بڑا حصہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے وابستہ ہے۔ اس کے باوجود ماضی کی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عمران خان سرکار نے زرعی INPUTS پر بے جا ٹیکس، زرعی کھاد کی قیمتوں میں بے جا اضافہ، کاشت کاروں کے لیے کسی قسم کی پالیسی یا مراعات کا نہ ہونا، کاشت کاروں کی اپنی فصلوں کے جائز معاوضہ نہ ملنے جیسے معاملات جاری رکھے۔ پڑوسی ممالک سمیت دنیا بھر میں زراعت کی ترقی کے لیے حکومتیں کاشت کاروں کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زراعت کی ترقی کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
این ایف سی ایوارڈ: اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت وفاق اور صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم ہر سال ہونی ہے۔ اس حوالے سے ایک مالیاتی کمیشن قائم کیا گیا جس کی ہر پانچ سال بعد تشکیل نو ہوگی اور جس کا کام یہ قرار پایا کہ صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنائے اور ہر سال بجٹ سے قبل قومی مالیاتی کمیشن کا باضابطہ اجلاس منعقد کرکے اس کا اعلان کیا جائے تاکہ صوبوں کو اپنے سالانہ بجٹ مرتب کرنے میں سہولت ہو۔ تاہم بدقسمتی سے یہ ایوارڈ کبھی صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے ملتوی کیے جاتے رہے تو کبھی کوئی دیگر رکاوٹ آڑے آگئی۔ پاکستان میں قومی وسائل کی تقسیم کا کوئی متفقہ فارمولا نہیں ہے، جس کی وجہ سے صوبے غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ آخری این ایف سی ایوارڈ کا اجراء دسمبر 2014 میں ہوا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس اہم قومی ایشو کو بھی کسی پارٹی یا ادارے کا ایشو قرار دے کر نظر انداز کیے رکھا۔ قومی وسائل کی تقسیم پر صوبوں کا اتفاقِ رائے فیڈریشن کی مضبوطی کا باعث ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے وفاق کی سرد مہری نے نہ صرف صوبوں کو معاشی بحران سے دوچار کیا ہوا ہے بلکہ یہ صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔