اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا‘ یوکرین کا معاملہ جلد حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ‘ روس جنگ کا خاتمہ اور امریکا اس کو ہوا دے رہا ہے‘ معاملہ مذاکرات سے حل نہ ہوا تو دنیا میں بڑی تباہی آئے گی‘ یوکرین کی حفاظت کے لیے ناٹو متحرک ہے ‘ یورپ میں گیس کا بحران پیدا ہو گیا‘ آئندہ سال خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے100 سال مکمل ہونے پر نیو ورلڈ آرڈر سامنے آسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ض) کے صدر محمد اعجاز الحق، تحریک انصاف کے ترجمان انجینئر افتخار احمد چودھری، سابق سفارت کار ڈاکٹر عبدالباسط، اکنامک تھینکنگ فورم کے رہنما عبدالمتین اخوندزادہ، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق نائب صدر، سارک ایس ایم ای کمیٹی کے وائس چیئرمین سجاد سرور، تحریک انصاف کی یوتھ رئیل اسٹیٹ کے رہنما فہد جعفری، دانشور محمد اشرف، پارلیمانی رپورٹرز ایسو سی ایشن کے صدر، تجزیہ کار صدیق ساجد، پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کھلاڑی ظفر اقبال، تحقیقاتی ادارے آئی آئی ایس ایس آر کے ڈائریکٹر جنرل جاوید الرحمن ترابی، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی،اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر نائب صدر سردار محمد احسان، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق سینئر
نائب صدر عمران شبیر عباسی، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے رہنما اسرار الحق مشوانی اور بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کے رہنما قاضی ظفر اقبال نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی جنگ چھڑ جانے کا خطرہ ہے؟‘‘ اعجاز الحق نے کہا کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی کیمپ کی سیاست کا حصہ نہیں بننے گا اور اپنی پالیسیوں کے مطابق غیرجانبدار رہے گا‘ ہم نے جانبدار پالیسی کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے‘ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے۔افتخار احمد چودھری نے کہا کہ امریکا سازش کے تحت روس کو نشانہ بنارہا ہے‘ روس یوکرین جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن امریکا جنگ کو ہوا دے کر روس کو معاشی طور پر کمزور کر رہا ہے‘یہ در اصل 2 طاقتوں کی لڑائی ہے فرق یہ ہے کہ اس بار میدان یورپ میں لگا ہے‘ جو بائیڈن کھل کر روس کے خلاف آ گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کا پس منظریہ ہے کہ یوکرین کے 2 علاقوں لوہانسک اور ڈونیسک نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا ہے‘ روسی صدر نے اُن کی خود مختاری کو تسلیم کر کے وہاں روسی فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ کہا یہ جا رہا ہے کہ مزید علیحدگی پسند عسکری گروہ خود مختاری کا اعلان کر سکتے ہیں جس سے یوکرین کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ محمد عثمان خان نے کہا کہ روس اور یوکرین دونوں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں وہاں بھی ایسی صورت حال ہے جیسی پاکستان میں ہے کہ کوئی سیاسی جماعت بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا کہ یوکرین روس تنازع کے اختتام پر دنیا ٹیکنالوجی بیس جنگوں کے حوالے سے نئے سوالات کا سامنا کر ے گی کیونکہ افواج کے آمنے سامنے جنگوں کا سلسلہ حقیقی طور پر شاید اب زیادہ عرصے نہ چل سکے البتہ سائبر کرائمز کی شرح ڈرامائی طور پر بڑھ گئی ہے۔ سجاد سرور نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے روس کا 2 روزہ دورہ کیا تھا‘ روسی صدر ولا دی میر پیوٹن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی کہ روسی صدر نے یوکرین پر حملے کا حکم دے دیا تھا جس سے وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کی اہمیت بڑھ گئی تھی‘ اب جب کہ پوری دنیا کی نظریں روس یوکرین جنگ پر لگی ہوئی ہیں‘ روس اور یوکرین کی کشیدگی نے عالمی تنازع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ خدشہ ہے کہ اس معاملے کو فوری طور پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ دنیا کے لیے ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ فہد جعفری نے کہا کہ عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے‘ یوکرین کا معاملہ کچھ دنوں میں حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے‘ یورپی یونین اس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی‘ یورپ روس کی گیس استعمال کرتا ہے‘ اس کی بندش کے اثرات پوری دنیا کی اکانومی پر پڑیں گے‘ 2023ء میں ایک نیا ورلڈ آرڈر پیش کیا جائے گا، اگلے سال ویسے بھی خلافت عثمانیہ کی تحلیل کو100 سال مکمل ہونے والے ہیں‘ عالمی حالات بہت بدل رہے ہیں۔ محمد اشرف نے کہا کہ عالمی جنگ ٹرمپ نے شروع کی تھی مگر اب جوبائیڈن نے اسے دھیما کر دیا ہے، عراق جس طرح کویت سے واپس آگیا تھا‘ اب روس بھی یوکرین سے واپس آجائے گا۔ صدیق ساجد نے کہا کہ عالمی جنگ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ظفر اقبال نے کہا کہ روسی صدر ولا دیمیر پیوٹن نے روسی پارلیمنٹ کی منظوری سے نہ صرف یوکرین کے 2 علاقوں کو خود مختار ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ روس کی ’’امن فوج‘‘ ان علاقوں کی خود مختاری کو یقینی بنانے کیلیے تعینات بھی کر دی ہے‘ روسی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین پر روسی حملے کی اجازت دینے سے تعبیر کیا اور کہا کہ روس کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ یوکرین کے مطابق ہمارا ملک کروز اور بلیسٹک میزائلوں کے حملوں کی زد میں ہے،جن کا مقصد انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا ہے۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ عالمی جنگ ہوگی‘ روس یوکرین تنازعے کی صورت حال کیا رُخ اختیار کرتی ہے اس کا اندازہ تو آنے والے دِنوں میں ہو گا‘ یورپ میں گیس کا بحران پیدا ہو گیا ہے‘ امریکا اور یورپی ممالک روس اور اس کی کمپنیوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں‘ امریکا نے فی الوقت روس پر براہ راست حملے کی دھمکی تو نہیں دی تاہم یہ کہا ہے کہ یوکرین کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جائیں گے۔ محمد احسان نے کہا کہ اقوام متحدہ اس موقع پر کیا کردار ادا کر سکتا ہے،اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا‘ 1945ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یورپ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ صدر پیوٹن روس کی توسیع پسندانہ پالیسی پر گامزن ہیں اور مشرقی یورپ کے بعض ممالک میں علیحدگی پسندی کو فروغ دے کر انہیں سابق سوویت یونین کی طرز پر روس کا حصہ بنانا چاہتے ہیں‘ یوکرین اُن کا پہلا ہدف ہے اور اُس کے 2 شہروں کو خود مختار ریاست تسلیم کر کے انہوں نے اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے جبکہ روس کا موقف یہ ہے کہ یوکرین ناٹو کا رکن بنا کر اس کے دروازے پر کھڑا ہو جانا چاہتا ہے‘ اس وقت تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ آمد و رفت کے ذرائع بند ہو رہے ہیں‘امریکا اور یورپی ممالک روس اور روسی کمپنیوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں‘ یوکرین کی حفاظت کے لیے ناٹو فورسز کو متحرک کر دیا گیا ہے۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ اقوام متحدہ اس موقع پر کیا کردار ادا کر سکتی ہے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا ۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ سیکورٹی کونسل میں جب تک ویٹو کے حامل ممالک روس یوکرین جنگ سے متعلق اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے‘ اس وقت تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی کوئی پروا نہیں کی تھی، اب روس اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے‘ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں‘ فریقین اس پر کان دھریں گے تو اپنے اپنے مفاد کی حفاظت کر پائیں گے۔ قاضی ظفر اقبال نے کہا کہ تیسری عالمی جنگ مشکل ہے ایسے کوئی حالات نظر نہیں آرہے ہیں۔