چین بھارت کی قربت، پاکستان سے دوری کا خدشہ؟

676

ہم نے 27مارچ 2022ء کے کالم میں چینی وزیرِ خارجہ کے دورے پر خدشات کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ چینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اجلاس میں چینی وزیر خارجہ سے کوئی بات نہیں کی گئی؟ 25مارچ کو چینی وزیر ِ خارجہ کے دورۂ بھارت نے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ چین کشمیر میں اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چینی وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت خفیہ رکھا گیا تھا اور آخری وقت تک دونوں ملکوں کی جانب سے سرکاری سطح پر اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ 24مارچ کی شب افغانستان سے پرواز کرنے سے قبل چینی وزیرِ خارجہ سے متعلق یہی اطلاعات تھیں کہ وہ نیپال جارہے ہیں لیکن ان کی نئی دہلی آمد کی تصدیق ان کے طیارے کے راستے کی ٹریکنگ سے ہو سکی۔
چینی وزیر خارجہ اچانک دہلی پہنچے جہاں اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات کی جس کے میں ایس جے شنکر نے دو روز قبل ہی کشمیر سے متعلق چینی وزیر خارجہ کے بیان پر بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا۔ چینی وزیر خارجہ اس ہفتے سب سے پہلے پاکستان کے دورے پر پہنچے تھے جہاں انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والی اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد وہ کابل کے دورے پر گئے اور پھر وہیں سے 24مارچ کی رات کو نئی دہلی پہنچے اور جمعے ہی کو وہ نیپال کے دورے پر روانہ ہو گئے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 25 مارچ کی صبح اپنے چینی ہم منصب وانگ ژی سے ملاقات کی یہ ملاقات تین گھنٹے جاری رہی، وانگ ژی ایک غیر اعلانیہ دورے پر کابل سے نئی دہلی پہنچے تھے لیکن کیا ایسا ہوتا ہے کہ اچانک چین کا رخ بھارت کی طرف پلٹ گیا اس کی کھوج لگانے کے بعد پتا چلا کہ چینی رہنما رواں برس کے اواخر میں بیجنگ کی میزبانی میں ہونے والے برکس اجلاس کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت بھی دینے والے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی کے درمیان، چین کی جانب سے یہ اعلیٰ سطح کا پہلا بھارتی دورہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات قدرے کشیدہ ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد وانگ ژ ی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے بھی ملاقات کرنے والے تھے لیکن ان سے طویل گفتگو ممکن نہیں ہوسکی۔ اور وانگ ژی نیپال چلے گئے۔ دورے کا مقصد کیا ہے؟ اس سلسلے میں نئی دہلی میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل تعطل کے بعد دوبارہ بات چیت اور دیگر مصروفیات کو شروع کرنا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، بیش تر غیر ملکی اعلیٰ شخصیات اور معززین دہلی کے پاس ایک دفاعی ائر پورٹ پر اترتے ہیں، تاہم چینی وزیر خارجہ وانگ کے جہاز نے دفاعی ائر پورٹ کے بجائے کمرشل ہوائی اڈے پر لینڈ کیا۔
ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ بھارتی دورے سے عین قبل چینی وزیر خارجہ نے کشمیر سے متعلق جو بیان دیا تھا، اس پر نئی دہلی میں کافی بے چینی تھی۔ بھارت نے کشمیر پر ان کے بیان کو بلا جواز قرار دیا تھا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں تقریباً سبھی رہنماؤں نے کشمیر کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ پہلی بار اس اجلاس میں شرکت کرنے والے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھی کشمیر سے متعلق او آئی سی کے رہنماؤں کے بیانات کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ’’مسئلہ کشمیر پر چین نے ایک بار پھر بہت سے اسلامی دوستوں کی آواز سنی ہے۔ چین بھی اسی طرح کی خواہشات رکھتا ہے‘‘۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے او آئی سی کے اجلاس سے چینی وزیر خارجہ کے خطاب پر اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ! ’’چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے خطاب کے دوران بھارت کے تعلق سے جو نام نہاد حوالے دیے ہیں، انہیں بھارت مسترد کرتا ہے‘‘۔ بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے سرحدی علاقوں میں کشیدہ صورت حال کے حوالے سے گزشتہ تقریباً دو برسوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ اس برس چین میں برازیل، بھارت اور جنوبی افریقا پر مشتمل برکس کی سربراہ کانفرنس ہونے والی ہے اور میزبان کی حیثیت سے چین تعلقات معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی 44 فی صد آبادی برکس ممالک میں بستی ہے۔ دنیا کی 30 فی صد جی ڈی پی انہیں ممالک سے آتا ہے اور عالمی سطح پر تجارت میں ان کا تقریباً 18 فی صد حصہ ہے۔ برازیل، روس، بھارت، جنوبی افریقا اور چین پر مشتمل تیزی سے معاشی ترقی کرنے والے ممالک پر مشتمل برکس کانفرنس کی میزبانی اکتوبر 2016ء میں بھارت نے کی تھی۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہوئی تھی جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اُس وقت بھارت میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے اس لیے بھارت میں بی جے پی کے سخت گیر لوگوں نے سوشل میڈیا پر چینی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلا رکھی ہے۔ حالانکہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا ہے۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ برکس (اینٹ) کی اینٹیں اب ایک ایک کرکے گر رہی ہیں۔ بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ رکن ممالک، جیسے چین اور بھارت، میں کئی مسائل پر اختلافات اور تضادات اس کی ترقی راہ میں حائل ہیں۔ برکس کے ارکان کو ملتے رہنا چاہیے۔ بھارت سے قبل برکس کا اجلاس روس میں ہو ا تھا اسی کانفرنس کے موقع پر چین اور بھارت اس قدر قریب اور دونوں ممالک کے درمیان طویل تجارتی شرکت دار ی شروع ہوئی تھی۔ بھارت سے قبل برکس کا اجلاس روس کے شہر اوفا میں ہونے کے بعد رکن ممالک جنوبی افریقا اور برازیل میں سیاسی ہلچل مچی رہی۔ اسی طرح رکن ممالک، چین اور بھارت، میں جنگ اور کئی مسائل پر اختلافات اور تضادات اس کی ترقی راہ میں خود ہی حائل ہوتے ہیں۔
برکس کے وجود میں آنے کی وجہ رکن ممالک کی ابھرتی معیشت اور ان کی اقتصادی طاقت تھی۔ لیکن اس کے تین رکن اس وقت سخت اقتصادی مندی کے بوجھ تلے ہیں۔ برازیل اور روس میں تو معاشی ترقی کی منفی شرح کا امکان ہے اور چین کی معیشت بھی اس وقت بحران کا شکار ہے۔ گروپ میں بھارت کی معیشت ہی 5۔7 کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ چین کو بھارت کی اسی ترقی نے قریب آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے تشویشناک ہے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے نریندر مودی اگر برکس کانفرنس میں شرکت کریں گے دونوں ممالک کی قربتوں اضافہ اور چین کی پاکستان سے دوری کے لیے راستے ہموار ہوں گے۔