تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وزیراعظم اور منحرف ارکان دونوں گھر جائیں گے،عدالت عظمیٰ

754

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وزیراعظم اور منحرف اراکین دونوں کو گھر جانا ہوگا، تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ بھی شمار ہوگا۔پیر کو چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک بار تیر کمان سے نکل گیا تو واپس نہیں آسکتا، تیر ووٹرز کی توقعات کے بجائے کہیں اور جالگے تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی بیانات دینے سے منع نہیں کر سکتے، سیاسی رہنما ججز کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کریں، سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم کو غیرذمے دارانہ بیانات سے گریز نہیں کرنا چاہیے؟ جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے کمالیہ میں کہا عدالت عظمیٰ کے ججز کو ساتھ ملایا جا رہا ہے، کیا ایسے سیاسی بیانات دیے جانے چاہئیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے باہر کیا ہو رہا ہے اسے عدالت کو نہیں دیکھنا چاہیے۔جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ قومی ٹی وی چینلز پر چلا اور سب نے دیکھا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میڈیا نے تو کل یہ بھی ہیڈ لائن لگائی کہ ریفرنس واپس ہو رہا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم تو عدالت کے باہر کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے، لیکن سوشل میڈیا اور میڈیا کو ایسے الفاظ سے گریز کرنا چاہیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کو عدالت عظمیٰ پر بھروسہ نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کیا، کسی کو بھی غیر ذمے دارانہ بیانات سے احتراز برتنا چاہیے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا سسٹم پر اثر پڑتا ہے، جماعت بدلنے والے اراکین دوبارہ جیت کر آجائیں تو یہ میوزیکل چیئر نہیں؟ یہ تو سسٹم کا مذاق اڑانا ہے۔بیرسٹر خالد جاوید نے کہا کہ عدالت عظمیٰ پارٹی سے انحراف کو کینسر قرار دے چکی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ایک نئے الیکشن پر کتنا خرچ ہوتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جنرل الیکشن پر اربوں روپے کا خرچہ ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ اگر جماعت پارٹی سربراہ پر عدم اعتماد کرے تو سربراہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، سیاسی جماعتوں کے اندر ان ہاوس تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹرکو فیصلہ کرنے دیں اگرکسی نے ان کے حقوق متاثر کیے ہیں،اسلام میں طلاق کا آپشن موجود ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسلام میں 4 شادیوں کی اجازت بھی ہے، یہ الگ بحث ہے، آئین میں درج ہے کہ کوئی بددیانتی کرے تو 5 سال ووٹرز کے پاس نہیں جا سکتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 4 سے 5 ڈکشنریوں میں دیکھا، انحراف لفظ کا کوئی مثبت مطلب نہیں ملا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقررہ اسپیڈ سے اوپر ڈرائیو کریں تو جرمانہ ہوتا ہے، ڈرائیونگ ازخود جرم نہیں، انحراف غلط ہے لیکن اگر غلط کے خلاف ہو رہا ہو تو پھر کیا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انحراف ثابت تو ہو پھر سزا کا تعین ہو، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ انحراف ثابت ہونا ضروری ہے۔عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔قبل ازیں چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس واقعے کے ذمے داران کو گرفتار آج کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔