وزیر اعظم کیخلاف ووٹ تو بہر صورت ہوگا ، چیف جسٹس

524

اسلام آباد(نمائندہ جسارت+آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹ تو بہر صورت ہوگا، اگر کوئی رکن اسمبلی ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا اور اس کے ووٹ کو شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے،ووٹ کی گنتی کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے، اگر آپ علی الاعلان پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دیں گے تو مطلب جماعت تو چھوڑ دی، پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس اور عدالت عظمیٰ کے پاس جائے گا،اصل معاملہ تو نا اہلی کی مدت کا ہے۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں عدم اعتماد کے موقع پر امن و امان بحال رکھنے سے متعلق سپریم کورٹ بار اور آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی۔سماعت کے موقع پراٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ووٹ کے بغیر آرٹیکل 63 اے کسی رکن اسمبلی پر لگ ہی نہیں سکتا، دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کے بعد رکن کے ساتھ کیا ہوگا۔چیف جسٹس نے عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پْرکرنا نہیں، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہییں۔انہوں نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں،سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا،دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے،دیکھنا ہو گا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں،1992 کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے،عدالت چاہیے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی،عدالت نے آرٹیکل کو 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا آپ فلور کراسنگ پر پابندی لگا کر پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بادشاہ نہیں بنانا چاہتے تو لوٹے بھی نہیں بنانا چاہتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور اگر وہ ووٹ ڈال سکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے۔بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں پارٹی کے سربراہ کو نہیں بلکہ پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے اور سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے۔کیس کی مزید سماعت آج ہوگی۔