آج یوم پاکستان، 23 مارچ 2022 کی صبح میں نیند سے بیدار ہوا ایسا لگا جیسے میرے جسم سے کسی نے میری روح نکال لی ہو، کیونکہ میری خواب میں علامہ محمد اقبالؒ سے ملاقات ہوئی (آج کے دن 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں قرارد پاکستان پیش ہوئی تھی جو اقبالؒ کے خواب کی تعبیر تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے قرار داد کی منظوری کے بعد اپنے سیکرٹری سے فرمایا! ’’اے کاش آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتے کہ بالآخر ہم نے آج وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے‘‘) خواب میں شاعر مشرق کے سوالات کے میرے پاس جوابات نہیں تھے شرمندگی بھی تھی لیکن خواب میں ملاقات اپنے آئیڈیل سے ہوئی تھی اس لیے اس ملاقات میں مجھے مقصد زندگی، اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پیغام مل گیا۔
میں نے خواب میں دیکھا سادہ سے کپڑوں میں ملبوس چند لوگ کسی شخصیت کے ارد گرد اکٹھے کھڑے ہیں میں آہستہ آہستہ آگے گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہاں پر علامہ محمد اقبالؒ بیٹھے ہیں اور نوجوانوں سے مخاطب ہیں غلامی میں گھرے ہوئے لوگوں کو آزادی کا درس دے رہے ہیں، اور مسلمانوں کا ان کی شاندار تاریخ سے رشتہ جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ ماضی کی کامیابیوں کا تزکرہ کرکے مسلمانوں کو مستقبل میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے جگایا جائے، علامہ محمد اقبالؒ نوجوانوں سے مخاطب ہیں کبھی تم نے یہ غور و فکر بھی کیا ہے۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کْچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
اے نوجوان! کیا تم نے کبھی اس امر پر غور کیا کہ تمہارے آبائو اجداد کیا تھے اور تم کس قوم کی اولاد ہو؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم اْس قوم کی اولاد ہو جس کی شان و شوکت کے آگے بڑے بڑے بادشاہ سرنگوں ہوگئے تھے۔ تمہارے آباؤ اجداد نے دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں (یعنی قیصر و کسریٰ) کو زیرِ نگیں کرلیا تھا۔ تمہارے اسلاف وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا والوں کو تہذیب سکھائی اور تمدن کا سبق پڑھایا۔ انہوں نے انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے اصول نافذ کیے۔ اگرچہ وہ اونٹوں کی پشت پر منزلیں طے کرتے تھے، پھر بھی انہوں نے اپنے جذب و شوق اور ان تھک محنت کی بنیاد پر دنیا کو ایک خوب صورت تہذیب عطا کی۔ وہ اقتدار و حکومت کی کرسی پر بھی نہایت سادہ و فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ تمہارے اسلاف میں جو دولت مند نہ تھے، مفلس و نادار تھے، وہ بھی بڑے غیرت مند و خوددار واقع ہوئے تھے۔ کسی کے آگے وہ ہاتھ نہ پھیلاتے بلکہ بڑے صبرو شکر اور شانِ استغنا سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ریگستانوں اور صحراؤں میں وہ رہنے والے اعلیٰ خوبیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے ملکوں کو فتح کیا، ان پر عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی اور ان کے انتظامات کو درست فرمایا، ان کو ہر طرح سجایا، سنوارا۔ اور پھر میں نے دیکھا علامہ محمد اقبالؒ ماضی کے مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تْو گْفتار وہ کردار، تْو ثابت وہ سیّارا
ان کے کارناموں اور خوبیوں کا ذکر میں کہاں تک کروں، میں چاہوں تو ان اللہ والوں کی تصویر اور ماضی کی شاندار تاریخ کا نقشہ لفظوں میں کھینچ کر رکھ دوں لیکن اے نوجوانو! تمہاری آنکھیں جو جدید تعلیم اور مغربی تہذیب سے خیرہ ہوگئی ہیں، اس کا نظارہ نہیں کرسکتیں۔ اپنی بے عملی کے سبب تم اپنے اسلاف سے بہت دور ہوگئے ہو۔ ان سے تمہاری کوئی نسبت نہیں معلوم ہوتی۔ اس لیے کہ وہ سراپا کردار تھے اور تم صرف گفتار کے غازی ہو۔ حرکت و عمل سے ان کی زندگی عبارت تھی اور تمہاری زندگی عیش کوشی کا شکار ہوگئی ہے۔ اپنے بزرگوں کی اعلیٰ خوبیوں سے ہم جب عاری ہوگئے تو وقت نے ہمیں عزت و سربلندی کے آسمان سے ذلت و خواری کے گڑھے میں پھینک دیا۔ قیادت و سیادت اور اقتدار و حکومت جیسی نعمتیں ہم سے چھن گئیں۔ اس لیے کہ یہ نعمتیں اْس قوم سے چھین لی جاتی ہیں جو شمشیر و سناں کو چھوڑ کر طاؤس و رْباب کی خوگر ہو جاتی ہیں۔
جسے ہی علامہ محمد اقبالؒ کی گفتگو ختم ہوئی تو میں وہاں پر رکا اور سب نوجوان جب چلے گئے، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں کیونکہ آپ کا لباس اور وضح قطعہ یہاں کے لوگوں سے مختلف ہے کسی جدید دنیا سے آپ کا تعلق محسوس ہوتا ہے تو پھر میں نے جواب دیا میرا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے جس کا آپ نے خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی کوششوں سے ممکن ہوئی اور ہمیں 14 اگست، 1947 کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔ میری یہ بات سن کر علامہ محمد اقبال کے چہرے پر تمانیت اور مسکراہٹ تھی۔ جس اسلامی ریاست کا انہوں نے خواب دیکھا تھا اس کے بارے انہوں نے سوالات کرنا شروع کیے۔
کیا آزادی کے بعد پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے جس کے لیے ہم نے جدوجہد کی اور برصغیر میں مسلمانوں کے شعور کو بیدار کیا تھا؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا پھر میں نے کانپتی ہوئی زبان کے ساتھ عرض کیا، قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان پر مفاد پرستوں نے حکومت کی مغرب کی تہذیب غالب آگئی، لبرل ازم اور سیکولرزم کے چاہنے والے حکمران بنے، آزادی کے بعد بھی اسلام مغلوب رہا۔ علامہ محمد اقبال کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ کافی دیر بعد انہوں نے اگلا سوال کیا کہ میرا شاہین کیسا ہے؟ یہ سوال تو پہلے سے بھی مشکل تھا کیونکہ اقبالؒ نے جس شاہین کا خواب دیکھا تھا وہ تو منشیات، پورن فلموں اور مذہب سے دوری کا شکار ہو گیاہے اور قرآن سے دور ہوگیا ہے
شاہین کا جہاں آج گرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مؒلاں سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناوؒں؟
علامہ محمد اقبالؒ نے پوچھا کہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ زمانے میں عزت اس نے پائی جس نے قرآن سے رشتہ جوڑا میرے ملک کے لوگوں کا کیا حال ہے ایک بار پھر مجھے ایسے لگا اقبال کے خواب کی تعبیر سے کوسوں دور ہیں اسلام کو ہم نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے جس سے اتحاد ختم ہو گیا ہے۔
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی، پنجاب کا مومن
ڈھونڈنے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناوؒں
علامہ محمد اقبالؒ کی روتے ہوئے ہچکی بندھ گئے اور آخر میں پوچھا میرا کشمیر کیسا ہے، میں نے کہا مقبوضہ کشمیر کو آزادی نہ ملی، وہاں پر ہر روز ظلم کی داستانیں لکھیں جاتی ہیں کیونکہ اب تو ہر طرف سے ملاں کی آواز تو آتی ہے مجاہد کہیں گم ہو گیا ہے جو کشمیر کو آزادی دلواتا، ہمارے حکمران نے بزدلی کا سبق پڑھ لیا ہے۔
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو آٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
علامہ محمد اقبالؒ نے کہا ایک مرد درویش سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے دین کی سربلندی کے لیے میرے کہنے پر پٹھان کوٹ ‘‘دارالسلام‘‘ ہجرت کی تھی وہ کیسے ہیں؟
خواب میں کی گئی ملاقات میں مجھے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کی قربت کا اندازہ ہوا لیکن مجھے دکھ اس چیز کا ہوا کہ کتنی قیمتی متاع تھی جس کی ہم نے قدر نہ کی اور ان کا لٹریچر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کے سوال کے جواب میں جو میں نے کہا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو 1953 میں قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی گئی۔ جو امت مسلمہ کے پرزور اسرار پر ختم کی گئی، انہوں نے شوشلزم کو ختم کرنے کے لیے علمی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن پاک کی تفسیر تفہیم القرآن لکھی جس سے پوری دنیا میں لاکھوں افراد نے استفادہ کیا، ان کی تحریروں کو پڑھ کر لاکھوں افراد مسلمان ہوئے، غلبہ دین کی جدوجہد کرتے ہوئے 1979 میں اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی کوششوں کو علامہ محمد اقبالؒ نے خراج تحسین پیش کیا اور دکھ کا اظہار کیا کہ ہمارے خواب کی تعبیر کے لیے جدوجہد کرنے پر سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے مغرب کے دلدادہ حکمرانوں نے جو سلوک کیا وہ تکلیف دہ ہے۔
آخر میں علامہ محمد اقبالؒ نے کہا پاکستان پوری اسلامی دنیا کی قیادت کے لیے بنا تھا آج کا پاکستان تو ہمارے خواب کی تعبیر نہیں ہے اس لیے تجدید عہد کریں کہ جس نظریہ کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا اسی نظریے یعنی قرآن کریم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسولؐ کی پیروی کرتے ہوئے ہم پاکستان کو ایک پرامن اور بہترین ملک بنائیں گے۔ ہم اہل پاکستان کی زمہ داری ہے کہ باہمی تنازعات اور فرقہ بندیاں، صوبائی و علاقائی تعصب کو بھلا کر خوشحال و مستحکم اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اسلامی فلاحی ریاست کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میری شاعری، قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے فرمودات اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر سے استفادہ کریں تو ہمارے خواب کی تعبیر مکمل ہو سکتی ہے۔