مملکت خداداد پاکستان اسلامی نظریے کے مطابق وجود میں آئی یہاں دوسرا نظام نہیں چل سکتا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران واضح طور پر ارشاد فرمایا تھا ’’ہم یہ کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ لفظ قوم کی کسی تعریف اور امتحان کی رو سے مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم 10 کروڑ افراد کی ایک قوم ہیں اور مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی اپنی مخصوص ثقافت، تمدن، زبان اور ادب، آرٹ اور صناعی، نام اور ناموں کا سلسلہ، قدروں کا معیار اور توازن، اخلاقی اور قانون نظام، رسوم و رواج اور کلینڈرو تاریخ اور روایات فطری صلاحیتیں اور مقاصد ہیں۔ مختصراً زندگی کے متعلق ہمارا مخصوص نظریہ ہے اور ہم اِسے ایک مخصوص انداز میں دیکھتے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ایک قوم ہیں‘‘۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم نے بارہا اپنے اس موقف کو پیش کیا اور ثقافت اور تمدن کے فرق سے اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نہ تو ہندوستان ایک ملک اور نہ یہاں ایک قوم بستی ہے بلکہ یہ چھوٹا سا براعظم ہے اور یہاں مختلف اقوام رہتی بستی ہیں۔
انہی عوامل کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو مسلمان دو الگ اقوام تھیں بظاہر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتی رہیں لیکن ان کے آپس کے رشتے کبھی اس طرح استوار نہ ہوسکے کہ وہ ایک قوم کی مانند بن جائیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ بعض رسوم و رواج ایک دوسرے نے اپنا لیے لیکن مذہبی اعتبار اور شادی بیاہ کرنے کا رواج بھی فروغ نہ پاسکا اسی لیے مختلف افراد نے ہندو مسلم تہذیب کے اختلاف کے حوالے سے یہ رائے نقل کی ہے کہ ’’ہندو مسلم ایک ساتھ رہتے بستے ضرور تھے مگر آپس میں ایک قوم کا تصور بھی نہ پنپ سکا۔ یہ بالکل دریا کے 2 سِروں پر رہنے والی اقوام تھیں جو ایک ہی دریا کا پانی پیتیں اور ایک دوسرے کے سامنے رہتی رہیں مگر کبھی ایک دوسرے سے نہ مل سکیں۔ مختلف حکمرانوں کی کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ اسی تصور کی بنیاد پر تقسیم برصغیر عمل میں آئی، اُمت اور ملت کا یہی اصول آگے چل کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا باعث بنا۔ سیکولر نظریات کے حامل انگریزوں کی غلامانہ حیثیت کے مالک مقامی کالے انگریز پاکستان میں اسلامی نظریے کی مخالفت پر کمربستہ رہے۔ یہی نہیں اردو زبان کی ترویج اور اسے دفتری زبان قرار دینے میں رکاوٹ بنتے رہے۔ یہی رکاوٹیں پاکستانی تشخص کو اُجاگر کرنے میں ناکام رہیں، حالاں کہ اردو کے بارے میں ہندوئوں کا رویہ تعصب پر مبنی رہا۔ 1867ء میں اردو ہندی تنازعے کا آغاز ہوا جس کا مقصد اردو کے بجائے ہندی کو عدالتی زبان قرار دینا تھا، ہندو اردو کی مخالفت اس لیے کرتے تھے کہ وہ اردو کو مسلم ثقافت کی نمائندہ زبان سمجھتے تھے۔ ہندوئوں کے اس رویے نے ان کی ذہنیت کو مسلمانوں پر پوری طرح آشکار کردیا۔ یہ اور ایسے دوسرے عوامل مل کر ہندوستان کی تقسیم کا باعث بنے۔
اگر سیکولر نظام ہی پاکستان کے لیے بہتر تھا تو ہمیں تقسیم کا نعرہ لگانے ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کی کیا ضرورت تھی اور پھر یہ آج کے روشن خیال مغرب کے پروردہ اس نعرے کو کیوں فراموش کرگئے۔ پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الااللہ‘‘ اس بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال کہ اس نعرے کو 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے لگایا تھا اور قیام پاکستان کے وقت یہ اور اس قسم کے نعروں کا کوئی وجود نہ تھا۔ بے جا اور غلط معلوم ہوتا ہے کیوں کہ تحریک پاکستان اور جدوجہد کے حوالے سے بے شمار کتب میں اس نعرے کا تذکرہ ملتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت انڈین سول سروس کے چند بیوروکریٹوں میں سے ایک قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی سوانح عمری میں اس نعرے کا تذکرہ کیا ہے۔ سورج کو چراغ دکھانے سے سورج کی روشنی ماند تو نہیں پڑ جاتی۔ پاکستان میں رہنے والے ہر مسلمان کا خمیر اسلام سے اُٹھا ہے اور وہ خود کو اس سے الگ تھلگ نہیں پاتا۔ 2007ء میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے مقدمے میں قائم عدالت عظمیٰ کی فل بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے دلائل کی تکمیل پر اتنی خوبصورت بات کہی کہ جس کی رو میں تمام روشن خیالی بہہ گئی۔ محترم رمدے صاحب نے فرمایا کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ جن کے خلاف ہوا انہیں دورکعت نفل شکرانے کے ادا کرنے چاہئیں۔ پوری قوم نے یہ منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا اور وہ فلک شگاف نعرے اپنے کانوں سے سنے جب لوگ حق کی فتح پر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ اللہ کی کبریائی اور اس کے نام کی بلندی کسی کی محتاج نہیں مگر جو احسان رب نے اپنے بندوں پر کیا اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس کا نام بلند کیا جائے یہی نام ازل سے موجود ہے اور ابد تک رہے گا۔ عوام اور وکلا نے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شکرانے کے نفل ادا کیے۔ یہی ہماری روایت ہے اور یہی ہماری اساس کہ جب ہم آزمائش میں آئیں تو صبر کریں اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام کی بارش ہو تو سجدۂ شکر بجا لائیں۔ تقریباً پندرہ سال بعد ایک بار پھر پاکستانی قوم دوراہے پر کھڑی ہے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنادیا گیا۔ اور استحصالی نظام رائج کیا جارہا ہے لوگ نانِ شبینہ کو محتاج ہیں مگر حکمران طبقہ اپنے آقائوں کی آشیروارد کی بنا پر کھلم کھلا نہیں تو ڈھکے چھپے انداز میں روشن خیالی کو اپنانا چاہتے ہیں بظاہر وزیراعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر یہ قول و فعل کا کھلا تضاد ہے۔ ریاست مدینہ کے روح رواں میرے آقا و مولیٰ سیدنا محمد مصطفیؐ کی شخصیت کا ہلکا ساشائبہ تک موصوف میں خط نہیں آتا۔ ریاست مدینہ کے دیگر خادمین میں چاروں خلفائے راشدین کو پیش کیا جاسکتا ہے مگر ان کی اتباع بھی نظر نہیں آتی کس کو یاد نہیں کہ جنگ خندق کے موقع پر جب ایک صحابی رسولؐ نے بھوک کی شدت کے پیش نظر اپنے پیٹ پر بندھے ایک پتھر کو دکھایا تو نبی کریمؐ نے اپنے پیٹ پر بندھے دو پتھر دکھائے اور اس بات کو کون بھول سکتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو عمر سے اس کی باز پرس ہوگی اور یہ واقعہ کسی کی نظر سے نہیں گزرا کہ جب کسی دور ملک سے آنے والے سفیر نے سیدنا علیؓ سے ملنا چاہا تو اُسے بتایا گیا کہ وہ شخص جو مسجد بیٹھا سوکھی روٹیاں بھگو کر کھارہا ہے وہی امیر المومنین ہیں اور یہ بات کس سے پوشیدہ رہی ہوگی کہ جب ابوبکر صدیقؓ کی شوریٰ کے ارکان نے ان کو اپنے وظیفہ میں اضافہ کرنے کو کہا تو خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ مدینہ کے مزدور کی اُجرت بڑھادو تو میں بھی اپنا وظیفہ بڑھالوں گا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
مگر آج حالت یہ ہے کہ وزیراعظم کی خوش لباسی کسی سے پوشیدہ نہیں کثیر تنخواہ لینے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس میں گزارہ ممکن نہیں۔ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار وزیراعظم دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں جب لاکھوں روپے تنخواہ کے باوجود بھی ان کی گزر بسر نہیں ہوتی تو 21 ہزار روپے ماہوار کمانے والا اپنے بچے فروخت کررہے ہیں۔ خودکشیاں ہورہی ہیں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے راہ زنی میں اضافہ ہورہا۔ لوگ چند ہزار روپے نقدی یا موبائل کے خاطر قتل سے گریز نہیں کرتے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ اگر ہم اسلامی شریعت کی بالادستی کرلیں تو اللہ کی رحمتیں زمین و آسمان پر دوجانب سے ہویدا ہوں گی رزق من و سلویٰ کی طرح برسے گا۔ ملک خوشحال اور معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ نظریہ پاکستان کی اساس پاکستان کا مطلب کیا ’’لاالہ الااللہ‘‘ کو شعوری طور پر اپنالیں۔