مسلم وزرائے خارجہ کا اجلاس

855

اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اہم اجلاس 22مارچ 2022ء سے اسلام آباد میں شروع ہورہا ہے۔ پاکستانی عوام، مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، مندوبین، سفارت کاروں اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہورہا ہے۔ 1969ء میں اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی تو مسلمانانِ عالم اس کے خلاف اظہار یکجہتی کے لیے اکٹھے ہوئے اور 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے دارالحکومت رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ او آئی سی مسلم ممالک کی ترجمان تنظیم ہے جو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے قیام کا مقصد عالمی برادری کے سامنے اْمت ِ مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کرنا اور مسلم ممالک کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہے۔ او آئی سی کے قیام میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے کئی مسائل دْنیا کے سامنے اْجاگر ہوئے اور مسلم اْمہ کا تصور اْبھرا۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کا موضوع اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری ہے۔ پاکستان میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس امت مسلمہ کے اتحاد، یکجہتی، ترقی اور خوشحالی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگی۔
جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے خلاف او آئی سی نے مشترکہ مؤقف اختیار کیا جس کے نتیجے میں روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا لیکن جب امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تو او آئی سی کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے سے قاصر رہی۔ یوں دونوں مسلم ممالک دنیا میں تنہا چھوڑ دیے گئے۔ یہی حال مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کا بھی ہے۔ اگرچہ ماضی میں مسلم ممالک نے جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی مگر ایک عرصہ سے او آئی سی کی طرف سے بھارت اور مغربی ممالک پر جو دباؤ ڈالا جاسکتا تھا اس سے اغماض برتا گیا۔ 1948ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کے بعد اقوامِ متحدہ نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا۔ اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر 1971ء تک 17 قرار دادیں منظور کی گئیں۔ معاہدہ تاشقند، شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور میں مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت اور وہاں کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا لیکن یہ تمام معاہدے اور قرار دادیں کاغذی کارروائی اور زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کی بات کی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بطورِ آرمی چیف کارگل کا محاذ کھولا لیکن حکومت پر قبضے کے بعد کشمیر کی آزادی کے بجائے اس کے ٹکڑے کرنے کی بات کی اور آزادی کشمیر کی جدوجہد روکنے کے لیے کنٹرول لائں پر باڑ لگانے میں بھارتی حکومت کی مدد کی۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کرلیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی تقریروں کے سوا کوئی عملی قدم نہ اْٹھایا۔ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا عندیہ دیا۔
اگرچہ تمام مسلم ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے لیکن 5 اگست 2019ء کے بھارت کے ناجائز اقدام پر 3 مسلم ممالک (تْرکی، ملائشیا اور ایران) کے علاوہ او آئی سی کے کسی ملک نے اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دی اور نہ کھل کر کشمیریوں کا ساتھ نہیں دیا۔ شایداس کی وجہ مسلم ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی و تجارتی مفادات ہیں۔ امریکی ابلاغیاتی ادارے دی نیشنل انٹرسٹ (The National Interest) نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اور امریکا بھارتی اقدام کی زیادہ مخالفت نہیں کریں گے کیونکہ دونوں کے معاشی روابط پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ 6 اگست 2019ء کو اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے اپنے رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور بھارتی اقدام پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس دوران سیکرٹری جنرل او آئی سی نے جموں و کشمیر میں جدو جہد ِ آزادی کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعادہ بھی کیا مگر اس سے آگے کچھ نہ ہوا۔ مسلم ممالک کی ایک بڑی تعداد قدرتی وسائل خصوصاً تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے انہیں بھارت سمیت کسی بھی عالمی معاشی طاقت کی مدد یا اْس پر انحصار کی ضرورت نہیں۔ اگر مسلم ممالک بھارت کو تیل کی ترسیل روک دیتے تو چند دن میں اْس کی معیشت بیٹھ جاتی لیکن افسوس کہ بعض بڑے مسلم ممالک نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اپنے ملکوں کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا۔
آج بھی پاکستانی عوام چاہتی ہے کہ او آئی سی کے تمام رکن ممالک خصوصاً عرب ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اْس طرح واضح اور دو ٹوک پالیسی اختیار کریں جس طرح یورپی یونین اور ناٹو نے یوکرین کے لیے اختیار کی ہے۔ بھارت کو جارح قرار دے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت کرے۔ بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرے اور یہ پابندیاں اْس وقت تک عائد رکھے جب تک وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت کو تسلیم نہیں کرتا، اپنی فوجیں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے واپس نہیں بلاتا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروانے کے لیے آمادہ نہیں ہو جاتا۔ مزیدبراں مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک بھارتی حکمرانوں کو پزیرائی نہ دیںکیونکہ ایسے اقدامات سے بھارتی ظلم و درندگی کا شکار بچوں، خواتین اور بزرگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
مسئلہ افغانستان کے حوالے سے بھی وزرائے خارجہ کی خدمت میں عرض ہے کہ 29 فروری 2020ء کو امریکا اور طالبان نے دْنیا بھر کی حکومتوں کے نمائندوں کے سامنے ’’دوحہ امن معاہدے‘‘ پر دستخط کیے۔ امریکا نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ اور دوحہ امن معاہدے پر نظر ثانی کا اعلان کیا اور افغانستان سے ناٹو افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی 2021ء سے بڑھا کر 11ستمبر 2021ء کردی۔ اس کے برعکس طالبان نے دوحہ امن معاہدے کی پاسداری کی۔ امریکی و ناٹو فورسز پر حملہ کرنے سے گریز کیا، کابل پر کنٹرول کے بعد عام معافی کا اعلان کیا، انتقامی کارروائیوں سے گریز کیا، قابض افواج کے محفوظ انخلا میں تعاون کیا۔ اپنے تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ایجنڈا کی وضاحت کی۔ انتہا پسندی کے بجائے میانہ روی اختیار کی، خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کیں۔ منشیات پر پابندی لگائی، انسانی حقوق اور میڈیا کو آزادیاں دیں۔ نامساعد حالات کے باوجود تین ماہ میں معاشی سرگرمیاں بحال کیں اور امن و امان اور دوستانہ ماحول پیدا کیا۔ بین الاقوامی برادری کا مطالبہ تھا کہ افغانستان میں مشترکہ حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے حالانکہ ویتنام جنگ، انقلابِ فرانس، انقلابِ روس اور انقلابِ چین کے بعد مشترکہ حکومت کا مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود امارت اسلامی افغانستان نے مختلف حالانکہ طبقہ ہائے فکر اور قومیتوں کو حکومت میں شامل کیا ہے۔ انخلا کے بعد امریکا نے افغانستان پر اقتصادی پابندیاں لگائیں اور ان کے اثاثوں پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں افغانستان خوفناک انسانی المیہ کا شکار ہو گیا۔ دسمبر 2021ء میں اسلام آباد میں او آئی سی کے اجلاس میں افغانستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدام کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ افغانستان میں اپنے تمام مشن بحال کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے اور امریکا افغانستان کے نصف اثاثے افغانستان کے حوالے کر نے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بہتر موقع ہے کہ او آئی سی اماراتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کرے، افغانستان سے سفارتی و اقتصادی رابطے بحال کرے۔ اقتصادی بحالی کے لیے کھلے دل سے افغانستان کی مادی اور سفارتی مددکرے اور اقوامِ عالم کو بھی نئی افغان حکومت تسلیم کرنے کی ترغیب دے۔ او آئی سی متفقہ طور پر روس، امریکا اور ناٹو سے مطالبہ کرے کہ افغانستان کو تاوانِ جنگ ادا کریں۔