(یوکرین کی صورتِ حال نے پوری دنیا کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ سب یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ اب روس کس راہ پر گامزن ہوگا۔ اِتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ یوکرین زیادہ دن ٹِک نہیں سکے گا مگر سوال یہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن کس طرف جانا پسند کریں گے اور کہاں تک جائیں گے یعنی کہاں رُکیں گے۔ پیوٹن کی ذمے داریوں کے حوالے سے بھارت کی معروف نیوز اینڈ ویوز ویب سائٹ rediff.com پر کرنل (ر) انیل اتھالے نے If Putin is wise… کے زیرِ عنوان اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس تجزیے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔)
………
یوکرین پر حملے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ اب روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ سوال اہم ہے۔ اگر وہ دانش مند ہیں تو پھر یوکرین کے مشرقی حصوں میں روسی نسل کے لوگوں کی اکثریت والے علاقوں پر تصرف قائم کرنے پر اکتفا کرتے نکل جائیں۔ اگر جنگ کو شہری علاقوں تک پھیلایا گیا تو روسی افواج دلدل میں پھنس جائیں گی۔
سرد جنگ کے دور میں امریکا کے لیے اگر کوئی خطہ ڈراؤنا خواب تھا تو مشرقی اور وسطی یورپ۔ 1970 کے عشرے میں یہ دونوں خطے امریکی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے۔ اگر ان دونوں خطوں میں کوئی بڑی سیاسی و اسٹرٹیجک اکھاڑ پچھاڑ ہوتی تو سوویت یونین ایٹمی جنگ چھیڑ سکتا تھا۔ ہنگری کا کیس نمایاں تھا۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ سابق سوویت یونین نے کم و بیش 45 سال تک ان دونوں خطوں پر اپنا تصرف قائم رکھا مگر عوام کے دل نہ جیتے جاسکے۔ لوگ خوش تھے نہ سوویت یونین کے ساتھ تھے۔ امریکا کے لیے یہ خطرہ ہر وقت رہتا تھا کہ کہیں سوویت یونین مشرقی اور وسطی یورپ میں کسی بڑی گڑبڑ کو بہانہ بناکر ایٹمی جنگ نہ چھیڑ دے۔ 1990 کے عشرے کے اوائل میں سوویت کی تحلیل واقع ہوتے ہی مشرقی اور وسطی یورپ کے تمام ممالک نے یورپی یونین اور ناٹو میں شمولیت اختیار کرلی۔
مشرقی اور وسطی یورپ میں انحراف کی بھنک پڑتے ہی سوویت یونین کے زیرِ اثر کام کرنے والی حکومتیں طاقت کے بھرپور استعمال کے ذریعے متعلقہ افراد یا اداروں کو کچل دیتی تھیں۔ 1956 میں ہنگری کا کیس اس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ 1967 میں چکو سلوواکیا کے بحران نے سر اٹھایا۔ امریکا اور سوویت یونین دونوں کے لیے یہ بات بہت اچھی تھی کہ مشرقی اور وسطی یورپ نے اُن کے درمیان بفر زون کا کردار ادا کیا۔ یوکرین کا تنازع ہنگری اور چیکو سلوواکیا کے بحران سے بہت حد تک مماثل ہے۔ اس وقت مغربی میڈیا میں سب کچھ روس کے خلاف شایع اور نشر ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے لوگ بھی وہی تصویر دیکھ رہے ہیں جو مغربی میڈیا دکھا رہا ہے۔ پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے میڈیا میں روس کا موقف زیادہ صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا جارہا۔
اس وقت مغرب خود کو بہت پاک صاف دکھا رہا ہے مگر پاپی وہ بھی کم نہیں۔ طاقت کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ مغرب یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اُس نے کبھی کچھ نہیں کیا بلکہ دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ روس اور یوکرین کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کا ہے یا پھر بھارت میں مدھیہ پردیش اور اُتر پردیش کا ہے۔ روس اور یوکرین کا تنازع بہت پرانا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان نسل، زبان، ثقافت اور مذہب (آرتھوڈوکس چرچ) کا فرق نہیں۔ یوکرین میں علٰٰٰیحدگی پسند ایک زمانے سے ہیں۔ 100 سال قبل جب سوویت یونین ابھی عہدِ طفولیت میں تھا تب مغرب کے قدامت پرست، شاہ پسند اور یوکرین کے قوم پرست ایک پلیٹ فارم پر آگئے تھے اور انہوں نے مل کر ’’سفید روسیوں‘‘ کے نام سے روس کے مقابل کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی۔ اس لڑائی میں شکست کا منہ دیکھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب نازی جرمنوں نے سوویت یونین پر حملہ کیا اور یوکرین پر قبضہ کرلیا تب ان قوم پرستوں نے ہٹلر کا ساتھ دیا۔ سرد جنگ کے دوران اِنہوں نے سوویت یونین کے مقابل امریکا اور مغربی یورپ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ 1990 کے عشرے کے اوائل میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ان قوم پرستوں نے ’’نارنجی انقلاب‘‘ برپا کرنے کی کوشش کی جس کا بنیادی مقصد یوکرین کی سرزمین پر روسی اثرات کم کرنا تھا۔
روس نے 2008 میں جارجیا میں ابخازیہ اور اوسیشیا پر اپنا تسلط قائم کیا۔ جارجیا کی سرزمین پر روسی نسل کے لوگ بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کا طویل ترین دور کا حامل حکمرانی جوزف اسٹالن کا تعلق بھی جارجیا سے تھا۔ جارجیا کی آبادی بھی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ وہاں کی دوسری بڑی زبان رشین ہے۔ جارجیا جغرافیائی طور پر ناٹو کی رکنیت کا اہل نہیں تاہم وہ بھی ناٹو کی رکنیت چاہتا ہے۔
روس کی معاشی حیثیت خاصی کمزور ہے۔ یورپ کے 45 ممالک میں فی کس خام قومی پیداوار کے اعتبار سے اس کا 43 واں نمبر ہے۔ اٹلی کا شمار یورپ کے کامیاب ترین ممالک میں نہیں ہوتا مگر روسی معیشت اطالوی معیشت کے بھی چوتھائی کے برابر ہے۔ سابق سوویت ریاستوں کی معاشی حیثیت انتہائی کمزور رہی ہے۔ اِن میں روس کی زیادہ دلچسپی نہیں۔ روس لاکھ کوشش کے باوجود اب تک سوفٹ پاور پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اپنی معیشت اور ریاستی ڈھانچے کو مضبوط رکھنے اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے روس کو آج بھی عسکری قوت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
جلد یا بدیر روس میں یوکرین کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھریں گے۔ اس معاملے میں ولادیمیر پیوٹن کو غیر معمولی دانش کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جوزف اسٹالن ایک ذہین حکمران تھا۔ وہ قائدانہ صلاحیت کا بھی حامل تھا۔ اُسے اپنی اور اپنی ریاست کی حدود کا اچھی طرح علم تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد کی صورتِ حال میں وہ اگر چاہتا تو مغربی یورپ پر بھی تصرف قائم کرسکتا تھا مگر اُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ کہاں تک جانا ہے، کہاں رُکنا ہے۔ اُس نے مشرقی اور وسطی یورپ تک پہنچ کر سفر روک دیا اور ان دونوں خطوں کو سوویت یونین اور مغربی طاقتوں کے درمیان بفر زون کا درجہ دے دیا۔
صدر پیوٹن کو اپنے لیے ایسا راستا چُننا ہے جس پر چلتے ہوئے ریاست کا وجود داؤ پر نہ لگے۔ اُنہیں بھی یہ طے کرنا ہے کہ رُکنا کہاں ہے۔ مشرقی یوکرین میں روسی نسل کے لوگوں کی اکثریت والے علاقوں پر تصرف قائم کرکے اُنہیں روسی افواج کو یوکرین سے نکال لینا چاہیے۔ دانش مندی کا تو یہی تقاضا ہے۔ مغربی دنیا یوکرین کو سوفٹ پاور کے حوالے سے غیر معمولی حد تک مدد کرسکتی ہے۔ پیوٹن کو بھی اپنے ملک کی سوفٹ پاور میں اضافے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ روس کو اپنے بیش تر مسائل حل کرنے کے لیے عسکری قوت کے استعمال پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پیوٹن کو معقول مشاورت کے ذریعے جامع اور دیرپا نوعیت کے فیصلے کرنا ہوں گے۔