انٹونی بلنکن چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور سینئر سفارت کار یانگ جی چی کے درمیان ہونے والی ملاقات مکمل طور سے ناکام ہوگئی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جارہی ہے امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات سے چند گھنٹے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ چین روس یوکرین جنگ میں روس کو جدید اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین روس کو خفیہ معلومات بھی فراہم کر رہا ہے جس کی مدد سے روس یوکرین پر حملہ کر رہا ہے۔
یہ وقت بھی عجیب ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی امریکی ریاست الاسکا میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور سینئر سفارت کار یانگ جی چی سے 14مارچ 2021ء کو ملاقات ہوئی تھی اور وہ بھی ناکام اور اب پورے ایک سال بعد 14مارچ 2022ء کو ہونے والے مذکرات بھی مکمل طور سے ناکام ہوگئے۔ ہماری رائے یہی ہے کہ 2021ء اور 2022ء میں امریکا روس ملاقات سے پہلے بائیڈن اور ان کی ٹیم نے ایک خاص صورتحال واضح کر لی تھی۔ اس ملاقات سے قبل انٹونی بلنکن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ کوئی تزویراتی مذاکرات نہیں ہیں اور اس وقت ماضی میں ہونے والے معاملات پر بات چیت کا بھی ارادہ نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سمت میں بات چیت کا دور اسی وقت شروع ہو گا جب امریکی خدشات پر چین کی جانب سے ٹھوس پیش رفت اور ٹھوس نتائج سامنے آئیں گے۔ پچھلے کچھ برسوں سے امریکا اور چین کے مابین تعلقات میں مسلسل کشیدگی آئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماضی میں اتنے برے تعلقات کبھی نہیں تھے اور ممکن ہے کہ ان میں مزید خرابی ہو۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کا ہمیشہ سے یہی خیال ہے کہ اب چین کے ساتھ مذاکرات کا دور ’مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے‘۔ جس کا اظہار انہوں الاسکا میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور سینئر سفارت کار یانگ جی چی سے کر دیا تھا۔ عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ صورتحال کی خرابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات کو نئی ’سرد جنگ‘ کہا جارہا ہے، جو نصف صدی قبل امریکا اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے ہے اور جس نے بیسویں صدی کی آخری پانچ دہائیوں میں عالمی تعلقات میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے 2021ء میں عبوری خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق چین ’معاشی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی نقطہ نظر سے ایک ممکنہ حریف ہے جو مستحکم اور کھلی بین الاقوامی آرڈر کے مستقل چیلنج پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے‘۔ بائیڈن انتظامیہ کا کلیدی نقطہ یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو چین کو چیلنج کیا جائے۔ یہ ساری صورتحال دونوں ممالک کو جنگ کی جانب جانے میں مدد کر رہی ہے دوسری طرف چین اسی طرح کا نکتہ ٔ نظر شاید رکھتا بھی ہو لیکن اس کی پالیسی یہی ہے کہ ایک طرف وہ تعمیری تعلقات جاری رکھے اور دوسری جانب اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سخت گیر اقدامات پر عمل کرنے کی پالیسی اپنائے۔ بیجنگ انتظامیہ امریکی نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کووڈ 19 وبا کے انفیکشن کو روکنے کا غلط طریقہ، اور اس سال جنوری 2022 میں کیپٹل ہل پر ہونے والے پرتشدد ہنگامے، چین نے خود کو ایک سماجی اور معاشی ماڈل ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے ان سبھی کا استعمال کیا اور ایسا کرنا ضروری بھی تھا جس کے بعد امریکا کے سنجیدہ حلقوں میں۔ ڈی ڈبلیو نیوز اور امریکی ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ روس نے چین سے معاشی اور فوجی مدد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
روس چینی فوجی آلات کو یوکرین پر کیے جانے والے حملوں میں استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ روس کی چین سے امداد فراہم کرنے کی درخواست کی مناسبت سے وائٹ ہاؤس نے چین کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے روس کو پابندیوں سے بچنے کے لیے مدد فراہم کی تو اسے بھی شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چین کی جانب سے ابھی تک روسی درخواست اور امریکی انتباہ پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ماسکو نے مغربی حکومتوں کی سخت پابندیوں کے تناظر میں بھی چینی حکومت سے براہِ راست امداد طلب کی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی پی کا کہنا ہے کہ درخواست میں چینی فوجی آلات بھی طلب کیے گئے ہیں تاکہ ماسکو یوکرین میں اپنی جاری جنگی مہم کو مزید تقویت دے سکے۔ اس مناسبت سے جب امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں چینی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا تو وہاں کی ترجمان کیو پینگیْو نے صاف صاف جواب دیا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں سنا ہے۔ چینی سفارت خانے کی ترجمان نے مزید کہا کہ ان کا ملک یوکرین کی جنگ سے پریشان ہے اور اس کوشش میں ہے کہ اس کا دائرہ مزید وسعت اختیار نہ کرے۔
سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان کا کہنا تھا کہ چین کو سرکاری اور نجی طور پر مطلع کر دیا گیا ہے کہ اگر روس کی مدد کی گئی تو شدید نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ انٹرویو میں جیک سولیوان نے یہ بھی کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ روس کی امداد جاری رکھنے کے سخت نتائج چین سمیت کسی بھی ملک کو برداشت کرنا پڑیں گے۔
ٹیوٹر اور ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر اپنے پیغام میں روس کی نیم خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست چیچنیا کے سربراہ رمضان قادریوف چیچن نے ا علان کیا ہے وہ دستوں کی کمانڈ کرنے کے لیے یوکرین پہنچ گئے۔
ان کا کہنا ہے وہ یوکرین کے دارالحکومت کیف سے کچھ ہی دور اپنی فوج کے ساتھ موجود ہیں۔ یوکرینی قیادت کو پیغام دیتے ہوئے چیچن رہنما کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس اب مزید وقت نہیں بچا، اس لیے بہتر ہے کہ سرنڈر کرکے ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ رمضان قادریوف نے چند دن قبل ہی پیوٹن سے ملاقات میں اپنی فوج کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہونے عندیہ دیا تھا۔ لیکن اس بات پر دنیا حیران ہے کہ امریکا یوکرین کے بعد چین کو دھمکی دے کر تائیوان کے خلاف کیا سازش تیار کر رہا ہے۔