بادشاہ اور وزیر خاص

870

بادشاہ اپنے محل میں چہل قدمی کر رہا تھا بہت پریشان نظر آرہا تھا ایک چالاک وزیر نے دیکھا بادشاہ تو بہت پریشان ہے۔ وزیر نے سوچا بادشاہ سے پریشانی کی وجہ پوچھی جائے، وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ سے کہا اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں، اور بادشاہ سے پریشانی کی وجہ پوچھی۔ بادشاہ نے کہا ہمارے بڑوں نے بڑی قربانیوں کے بعد یہ ریاست حاصل کی اب یہ عالم ہے میرے وزیر خاص کی نالائقی کی وجہ سے ریاست تباہی کے دہانے پر ہے معیشت تباہ ہوگئی ہے، وزیر خاص خدمت بھی احسن انداز میں نہیں کررہے کرپشن بھی بڑھ رہی ہے، وزیر نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا اگر آپ مجھے وزیر خاص بنا دیں تو میں آپ کی خدمت بھی کروں گا اور ملک ترقی کرے گا آپ کی رعایا بھی خوش ہوگی، انہیں روزگار اور گھر ملیں گے، کرپشن ختم ہو جائے گی اور 90 دنوں میں ریاست کے حالات بہتر ہو جائیں گے یہ بات سن کر بادشاہ نے سوچنا شروع کر دیا اور کچھ دن بعد اس وزیر کو وزیر خاص بنا دیا۔ بادشاہ اس وزیر پر بہت یقین کرتا تھا کیونکہ وہ وزیر بادشاہ کا عقیدت مند تھا۔ وزیر نے پورے دل سے بادشاہ کی خدمت کی اس وجہ سے وزیر خاص تو بن گیا لیکن تھا بالکل بے وقوف تھا۔ اسے کوئی کام ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اور ملک کے حالات پہلے سے بدتر ہوگئے تھے۔ ریاست کی معیشت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔ ریاست بری طرح قرض اور سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگئی، دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ستمبر 2021 تک ریاست نے دوسری ریاستوں سے 50.5 ٹریلین روپے قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ وزیر خاص کے 39 مہینوں میں 20.7 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا اور سود کی ادائیگی 7.5 ٹریلین روپے ادا کیے۔ مرکزی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق سابق وزیر خاص کی حکومت کے اختتام پر جون 2018 میں یہ حجم 95 ارب ڈالر تھا۔ جو ستمبر 2021 کے آخری ہفتے تک 127 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ کرپشن میں ریاست پہلے سے ترقی کرگئی، رعایا مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے بھوک سے تنگ آگئی تھی۔ غربت کی وجہ سے شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فی صد بچے مڈل اسکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دیہات میں یہ شرح 2 فی صد کے قریب ہے۔ ریاست کی تقریباً 50فی صد سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے غربت کی وجہ سے تقریباً 2 کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو وزیر خاص نے وعدے کیے تھے اس کے برعکس نتائج مرتب ہورہے تھے۔
یہ اہل سیاست کی روایت ہے پرانی
دعویٰ جو کیا کرتے ہیں پورا نہیں کرتے
ایک طرف تو ریاست کا برا حال تھا اور دوسری طرف وزیر خاص سے بادشاہ کی خدمت کرنے کا حق ادا نہیں ہو پا رہا تھا۔
ایک دن بادشاہ آرام کر رہا تھا معمول کے مطابق وزیر خاص خدمت کے لیے حاضر تھا۔ ایک مکھی آکر بادشاہ کے اوپر بیٹھ گئی۔ وزیر خاص نے مکھی کو بار بار پنکھے سے بھگانے کی کوشش کی، لیکن مکھی بادشاہ کے سینے پر، کبھی سر پر، کبھی ران پر بیٹھتی تھی۔ بے وقوف وزیر بہت دیر تک مکھی کو بھگانے کی کوشش کرتا رہا، لیکن مکھی وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ یہ دیکھ کر وزیر خاص غصے میں آگیا اور پنکھا چھوڑنے کے بعد تلوار نکالی۔ جب مکھی بادشاہ کے ماتھے پر بیٹھتی ہے، وزیر تلوار لے کر بادشاہ کے سینے پر چڑھ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت ڈرا۔ پھر مکھی پیشانی سے اڑ جاتی ہے، وزیر خاص اسے مارنے کے لیے تلوار کو ہوا میں لہراتا ہے۔ اس کے بعد، مکھی بادشاہ کے سر پر بیٹھتی ہے، پھر وزیر کی تلوار بادشاہ کے بال کاٹتی ہے یہ دیکھ کر بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیے کمرے سے بھاگ گیا اور وزیر خاص تلوار لے کر اس کے پیچھے بھاگ گیا۔ اس سے پورے محل میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔
بادشاہ سلامت اب پھر پریشان ہیں سوچ رہے ہیں پرانے وزیر خاص کو واپس لے کر آئیں یا موجودہ کو کچھ وقت اور دیں دونوں صورتوں میں ریاست خطرے میں ہے اب بادشاہ سلامت ہی فیصلہ کریں گے کیونکہ بادشاہ تو بادشاہ ہوتے ہیں
انا کی موج مستی میں ابھی بھی بادشاہ ہیں ہم
جو ہم کو توڑ دیتا ہے، ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں
میرا مشورہ ہے بادشاہ سلامت کو کرپشن سے پاک ریاست بنانے کے لیے ایسے فرد کو وزیر خاص بنائیں جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں، ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جن کے دور حکومت میں عدالتوں میں انصاف ملے، NAB کو سیاسی مقاصد کے بجائے کرپشن ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے، بچوں کو تعلیم مفت ملے۔ رعایا پیٹ بھر کر کھانا کھائے، اور آزادی کشمیر کے مسئلے کو حل کروایا جا سکے۔