کون یاد رکھتا ہے؟

430

احمد (بھارت) کے اخبار ’’لوک سَتّا‘‘ کی 3 مارچ 2022 کی اشاعت کے لیے میور پاٹھک نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کوئی بھی جنگ دیکھنے والوں کے لیے کچھ اور ہوتی ہے اور بھگتنے والوں کے لیے کچھ اور۔ جو میدانِ جنگ میں ہوں اور سب کچھ بھگت رہے ہوں وہی بتاسکتے ہیں کہ جنگ کیا کیا قیامت ڈھاتی ہے۔ گھروں میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ہلکے پھلکے انداز سے جنگ پر تبصرے کرنے والوں کو کیا معلوم کہ جنگ کیسی تباہی لاتی ہے۔ دو عالمگیر جنگوں کے دوران جو تباہی واقع ہوئی اُس کی داستانیں پڑھیے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان دونوں جنگوں کو اب تک کی جنگوں کی ماں کہا جاتا ہے۔
یوکرین میں اب تک بہتری کے آثار نہیں۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ روس بضد رہا اور اپنی بات منوانے کی ہٹھ نہ چھوڑی تو کوئی معمولی سا واقعہ بھی انتہائی بگاڑ پیدا کرسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں تیسری عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ یوکرین نے اب تک روس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ روس نے بھرپور قوت اب تک استعمال نہیں کی۔ یوکرین میں اب تک اچھی خاصی تباہی ہوچکی ہے۔ روس نے مزید طاقت استعمال کی تو مزید تباہی ہوگی۔
خیال تھا کہ لڑائی تین چار دن سے زیادہ نہیں چلے گی مگر معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ جنگ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے مگر کم ہی لوگ یاد رکھ پاتے ہیں۔ یوکرین بھر میں بمباری اور گولا باری کی گئی ہے۔ یوکرین کے طول و عرض میں ہزاروں خاندان منقسم ہوگئے ہیں۔ جان بچاکر مغربی یورپ کا رخ کرنے والوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنا پڑا ہے۔ روس نے خواتین اور بچوں کو نکل جانے کی اجازت دی ہے۔ یوکرین کی حکومت نے 18 سے 60 سال تک کے مردوں کو روک لیا ہے۔ یوکرین کے بہت سے باشندے بیرونِ ملک سے واپس آکر لڑائی میں شریک ہوئے ہیں۔
یوکرین کے بحران نے دنیا کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ یہ بحران ایک نئی دنیا کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ جنگ کی تباہ کاریاں وہی لوگ ڈھنگ سے بیان کرسکتے ہیں جنہوں نے جنگ کو بھگتا ہو اور سلامت نکل آئے ہوں۔ یوکرین کی صورتِ حال نے ثابت کردیا ہے کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بھی فُل اسکیل جنگ کے امکان کو ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ آج بھی انسان جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔
نیپال تو دردِ سر ہوگیا
………………
احمد آباد (بھارت) کے اخبار ’’گجرات سماچار‘‘ نے 5 مارچ 2022 کے ادارے میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت نے اپنی ریاست اترا کھنڈ اور نیپال کی سرحد سے ملحق 34 مربع کلو میٹر کے علاقے کو بھارت کا حصہ بتاتے ہوئے نقشے میں شامل کردیا ہے۔ اس پر نیپال میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ نیپال کا دعوٰی ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔ اب نیپال بھی بھارت کو آنکھیں دکھانے لگا ہے۔ ایسا وہ چین کی شہ پر کر رہا ہے۔ چین نے نیپال اور بھارت کے سرحدی تنازعات کے حوالے سے بھی شور مچایا ہے۔ اس وقت نیپال میں ماؤ نواز عناصر سیاست میں تیزی سے فعال ہوتے جارہے ہیں۔ چین کے خلاف بات کرنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ چینی قیادت نے جامع حکمتِ عملی کے تحت نیپال میں آبادی کا توازن بگاڑنا شروع کردیا ہے۔ نیپال آنے والے بہت سے چینی کسی نہ کسی بہانے ٹھیر جاتے ہیں۔ نیپال کے طول و عرض میں چینی باشندے بہ کثرت دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ دن دور نہیں جب نیپال سے ہندوؤں کو نکال دیا جائے گا۔ جو حالت تبت کی ہے وہی بہت جلد نیپال کی بھی ہوگی۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ نیپال اول و آخر چین کا حاشیہ بردار ہے، پالتو ہے۔ وہ چین کی طرف سے شہ پاکر بھارت کو مختلف معاملات میں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ نیپال کے لوگوں کو خوب اندازہ ہے کہ اُن کی قیادت معاملات کو خود ہی خراب کر رہی ہے۔ حکومت مخالف تحریک کو طاقت سے کچلا جارہا ہے۔ ملک بھر میں شدید بحرانی کیفیت ہے مگر اس کے باوجود اصلاحِ احوال کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔ نیپالی حکومت اس وقت چین کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ بھارت کے 42 ٹی وی چینلز پر نیپال میں پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت پر مامور بھارتی کے پیرا ملٹری ونگ بارڈر سیکورٹی فورس کے جوانوں کو نیپالی اہلکار آئے دن پکڑ لیتے ہیں اور پھر پوچھ گچھ کے نام پر پریشان کرنے کے بعد چھوڑتے ہیں۔
نیپال اِتنا چھوٹا ہے کہ بھارت ایک پُھونک ہی مار دے تو اُڑ جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیوں اس قدر خود سری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ نیپال میں ماؤ نواز عناصر کے سیاست میں سرگرم ہونے پر بھارتی قیادت کو جاگنا ہی چاہیے۔ نیپال کبھی بھارت کا دوست ہوا کرتا تھا مگر پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ وہ دشمنوں کی صف میں جا بیٹھا۔ اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کس کے پاس کتنے ایٹمی ہتھیار؟
………………
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق فورس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دے کر کھلبلی مچادی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوںکے بعد اُنہوں نے ایٹمی فورس کو متحرک کیا۔ اگر پیوٹن ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہوں تب بھی یہ بات ہے بہت تشویش ناک کہ ایٹمی ہتھیاروں کی اتھارٹیز کو ہائی الرٹ پر رکھا جائے۔ سوئیڈن کے اسٹاک ہوم انٹر نیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سرد کے جنگ کے بعد بہت سے ایٹمی ہتھیار تلف کردیے گئے تھے مگر اب بھی دنیا بھر میں کم و بیش 14 ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں۔ سپری کی ایک رپورٹ کے مطابق 9 ممالک کے پاس 13400 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان میں 3720 ایٹمی ہتھیار تعینات کیے ہوئے ہیں یعنی فوج اُنہیں استعمال کرسکتی ہے۔ اور ان میں بھی 1800 ایٹمی ہتھیار ہائی الرٹ ہیں یعنی گرین سگنل ملتے ہی چلائے جاسکتے ہیں۔ ہائی الرٹ پر رکھے ہوئے ایٹمی ہتھیار امریکا اور روس کے ہیں۔ روس کے پاس 6375 جبکہ امریکا کے پاس 5800 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پاکستان اور چین ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں بھارت سے آگے ہیں۔ بھارت کے پاس 150 جبکہ پاکستان کے پاس 160 اور چین کے پاس 320 ایٹمی ہتھیار ہیں۔
1970 میں 190 ممالک کے درمیان ایک وسیع البنیاد معاہدہ ہوا تھا جس کا بنیادی مقصد ایٹمی عدم پھیلاؤ یقینی بنانا تھا۔ اس معاہدے کو نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) کا نام دیا گیا تھا۔ اس پر امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ نے دستخط کیے تھے۔ تب بھارت، پاکستان اور اسرائیل دستخط کرنے سے مجتنب رہے تھے۔ این پی ٹی کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے اور بعد میں اسرائیل، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا نے بھی ایٹمی قوت حاصل کی تاہم اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔