یوکرین بحران اور عالمی اخبارات

836

یورپی پالیسیوں کا دوغلا پن
ورلڈ پالٹکس ریویو ڈاٹ کام کے لیے 3 مارچ 2022 کو لی زیمور نے ’’یوکرین کے بحران نے پناہ گزینوں سے متعلق یورپ کا دوغلا پن بے نقاب کردیا‘‘ زیر عنوان لکھا ’’1940 کے بعد سے اب تک یورپ کو پناہ گزینوں کے ایسے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا اب یوکرین کے معاملے میں دکھائی دے رہا ہے۔ اب تک 12 لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے فرار ہوکر پولینڈ، ہنگری، سلوواکیا، رومانہ اور مالدووا پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین سے یورپی ممالک پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 70 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین گروپ ہوگا۔ 2014 میں جب روس نے کرائیمیا کو اپنا حصہ بنایا تھا تب بھی 14 لاکھ سے زائد یوکرینی باشندوں نے دوسرے ممالک میں پناہ لی تھی‘‘۔
’’شام سے بھی کم و بیش 10 لاکھ افراد جان بچاکر یورپ پہنچے تھے۔ تب یورپی ممالک نے سخت رویہ دکھایا تھا۔ سوئیڈن اور جرمنی نے البتہ قدرے نرم رویہ اپنایا تھا۔ یوکرین کے لیے یورپی ممالک نے باہیں کھول دی ہیں۔ ویزا کی شرائط بھی ختم کردی گئی ہیں اور تین سالہ قیام کا اجازت نامہ بھی دیا گیا ہے۔ یوکرین سے آنے والوں کو کام کرنے یعنی کمانے کی بھی آزادی ہوگی۔ یورپ کے اس دو رخے پن پر دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے۔ سفید فام نسلوں کے لیے تو اُس نے خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور ’کلرڈ‘ نسلوں کو اپنانے میں وہ غیر معمولی تذبذب، بلکہ بے حِسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم اور سرد جنگ کے زمانوں میں بھی یورپ یا یہی رویہ رہا تھا۔ یورپی باشندوں کے لیے تو یورپی ممالک اپنے دروازے بخوشی کھول دیتے تھے۔ کسی اور خطے یا ملک سے آنے والوں کو قدرے لاتعلقی پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘‘۔
امریکا و بھارت کے ملاپ کا وقت
……………………
دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام کے لیے اپرنے دیش پانڈے نے 3 مارچ 2022 کو ’’امریکا اور بھارت کو وسطِ ایشیا کے لیے مل کر کیوں کام کرنا چاہیے؟‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ’’افغانستان سے امریکی انخلا کو وسطِ ایشیا کی ریاستوں نے امریکا کی طرف سے خطے کو ترک کرنے کے مفہوم میں دیکھا۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد قازقستان کی قیادت روس کی طرف جھک گئی۔ افغانستان میں بھارت اور امریکا نے مل کر کام کیا تھا کیونکہ ایشیا کو یورپ سے ملانے والے خطے کے طور پر افغانستان کی حیثیت غیر معمولی تھی‘‘۔
’’یوکرین کے بحران سے بھارت کا بیلینسنگ ایکٹ متاثر ہوا ہے۔ وہ امریکا اور بیجنگ کے درمیان قدرے متوازن ہوکر چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یوکرین پر حملے کی پاداش میں بھارت کے پارٹنرز سمیت متعدد ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ بھارت کو بھی اس حوالے سے مشکل وقت کا سامنا ہے۔ اگر وہ اپنے پارٹنرز کے ساتھ جاتا ہے تو روس ناراض ہوتا ہے اور اگر روس کو منانے کی کوشش کرتا ہے تو پارٹنرز خفا ہوتے ہیں‘‘۔
’’اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ یوکرین کا بحران اسٹرٹیجک معاملات میں بھارت کی خود مختار حیثیت اور فیصلے کرنے کی آزادی کے لیے ایک بڑی آزمائش بن کر آیا ہے۔ 27 جنوری 2022 کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ ایک سربراہ کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت وسطِ ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تجارت، خطے کو ایک لڑی میں پرونے کے عمل اور سیکورٹی کے معاملات میں اشتراکِ عمل یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں بھی بھارت نے روس اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں سے انفرادی تعلقات استوار رکھے تھے‘‘۔
’’وسطِ ایشیا اہم خطہ ہے۔ اس معاملے میں بھارت اور روس کے درمیان اختلافات بھی سر اٹھا سکتے ہیں۔ روس اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ بھارت اپنی پالیسیوں میں اس خطے کو مغرب کے کھاتے میں رکھے۔ وسطِ ایشیا چین کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ ایشیا کو یورپ سے ملانے والا پُل یہی تو ہے۔ امریکا نے وسطِ ایشیا کے معاملات میں بھارت کو انگیج کرنے کی کوشش کی ہے۔ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ بھارت کو بھی ساتھ رکھ کر اُس نے QUAD کے نام سے گروپ بنایا ہے‘‘۔
’’بھارت اب تک مخمصے میں ہے۔ 2002 سے 2021 تک اُس نے افغانستان میں کم و بیش 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ بنیادی ڈھانچا تیار کرنے میں اُس نے افغانستان کا ساتھ دیا تاکہ وہاں اپنے لیے اسٹرٹیجک ڈیپتھ یقینی بناسکے۔ طالبان کی دوبارہ آمد سے اُس کے خواب چکناچور ہوگئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن بھی افغانستان کو بھول جانا چاہتے ہیں مگر بھارت کے لیے اپنی 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کو بھلانا ممکن نہیں۔ ایسے میں بھارتی قیادت کو وسطِ ایشیا کے حوالے سے بہت محتاط رہنا ہوگا‘‘۔
چین کے لیے بھی دو راہا
…………………
ورلڈ پالٹکس ریویو ڈاٹ کام کے لیے مائیکل کلارک نے 7 مارچ کو ’’چین کو پیوٹن کی چھیڑی ہوئی جنگ میں دو بُرے آپشنز میں سے ایک کا انتخاب کا کرنا ہے‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ’’چین اور روس دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے علاوہ اسٹرٹیجک معاملات میں ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں۔ روس نے حال ہی میں چین سے 117 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت روس خام تیل اور گیس فراہم کرے گا۔ یوکرین کی صورتِ حال روس چین اقتصادی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اب تک چین کے صدر شی جن پنگ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ روس کے پیدا کردہ بحران سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاکر امریکا اور یورپ کے لیے دردِ سر بنے رہنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’امریکا نے روس کو یوکرین پر حملے سے باز رکھنے کے سلسلے میں خفیہ معلومات چین سے شیئر کی تھیں تاکہ وہ روسی قیادت کو سمجھائے کہ حملے کی صورت میں اُسے پورے مغرب کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیو یارک ٹائمز نے بتایا ہے کہ چین نے یہ خفیہ معلومات یوکرین سے شیئر کرلیں! اخبار نے یہ بھی بتایا ہے کہ حال ہی میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر روس اور چین کے صدور کی ملاقات میں یوکرین کی صورتِ حال سمیت متعدد علاقائی معاملات پر بھی تبادلۂ خیال ہوا تھا۔ لازم نہیں کہ یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کے معاملے پر بھی بات ہوئی ہو تاہم اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین اور روس کتنے قریب آچکے ہیں‘‘۔
’’چند ایک ایسے اشارے ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس کو یوکرین کے خلاف عسکری مہم جوئی کی پاداش میں جو اقتصادی پابندیاں جھیلنا پڑیں گی اُن کا بوجھ روس نہیں اٹھانا چاہتا۔ سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد پر رائے شماری میں چین الگ تھلگ رہا۔ چین کو بھی اپنے ہاں علٰیحدگی کی تحریکوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں اُسے روس کا کھل کر ساتھ دینے کے حوالے سے محتاط رہنا پڑے گا۔