سیاسی بحران اور دہشت گردی

492

2مارچ 2022ء کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے فاطمہ جناح روڈ پر پیش آنے والا واقعہ،8 مارچ کو صدر مملکت کی آمد کے موقع پر سبی میں خودکش حملہ اور پشاور کے قصہ خوانی کے کوچہ رسالدار میں واقع مسجد میں فائرنگ اور دھماکوں کے منصوبہ سازوں کے درمیان ارتباط پایا جاتا ہے۔ پشاور میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ کوئٹہ میں تین قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے، جہاں ان کا منصوبہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا ہے۔ فاطمہ جناح روڈ پر واقع چپل سازی کی جس دکان کا انتخاب کیا گیا وہ ہزارہ افراد کی تھی۔ نامعلوم افراد نے پہلے دکان کے اندر گھس کر گولیاں چلا کر دو افراد کو قتل کردیا اور وہی ریموٹ کنٹرول بم رکھ دیا تاکہ جب پولیس اور ایف سی اہلکار پہنچیں گے، تو ریموٹ کنٹرول دھماکا کرکے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرایا جاسکے۔ فائرنگ کے بعد آس پاس کے لوگ جمع ہوئے تو اس اثنا دھماکا ہوا جس میں ڈی ایس پی کرائم برانچ اجمل سدوزئی جاں بحق ہوگئے، جبکہ پچیس افراد زخمی ہوئے۔ اجمل سدوزئی کا گھر قریب واقع تھا وہ فائرنگ کی آواز سن کر پہنچ گئے تھے۔ جنوری 2021ء کے بعد فرقہ وارنہ رنگ رکھنے والا یہ پہلا واقعہ ہے۔ البتہ صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کئی سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔8مارچ کو سبی میں میلے کی اختتامی تقریب کے بعد خودکش دھماکا کرایا گیا۔ صدر پاکستان عارف علوی سبی میلے کی اختتامی تقریب میں موجود تھے۔ تقریب کے بعد صدر جس راستے سے پندرہ منٹ پہلے گزرے وہاں سیکورٹی پر مامور اہلکار نشانہ بن گئے۔ نتیجتاً سات اہلکار جاں بحق ہو گئے، بیس سے زائد زخمی ہوئے۔
پشاور سانحہ کی ذمے داری داعش گروہ نے قبول کرلی ہے۔ اس گروہ کا قوی ٹھکانہ افغانستان ہے۔ جنہیں عالمی ایجنسیوں کا تعاون حاصل ہے۔ افغانستان کے اندر انہیں امریکی، ناٹو اور بھارت کی حمایت یافتہ حکومتوں میں زبردست تقویت ملی۔ اس عرصہ بھی یہ گروہ اسپتالوں، تعلیمی اداروں، مذہبی تقریبات کو نشانہ بناتا رہا۔ یہاں تک کہ افغانستان کے غیر مسلم عوام تک پر حملے کیے گئے۔ تب کی افغان حکومتیں اور انٹیلی جنس ادارے حقائق کے بجائے ان کارروائیوں کو افغان طالبان سے جوڑنے کی کوشش کرتے۔ سرکاری میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گمراہ کن ماحول بنایا جاتا۔ جاپانی ماہر ڈاکٹر ناکا مورا کے قتل تک کو طالبان سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی۔ لوگوں کو طالبان مخالف احتجاج پر سڑکوں پر نکالا جاتا۔ اس سرکاری خیانت کا نتیجہ یہ ہوا کہ داعش اور دوسرے گروہ مضبوط ہوتے اوران سے وابستہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس گروہ نے حتیٰ کہ بلوچستان کے اندر بالخصوص کوئٹہ اور اس کے قریبی اضلاع میں ٹھکانے قائم کرد یے۔ نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا۔ کالعدم لشکر جھنگوی اس گروہ میں ضم ہوا۔ ٹی ٹی پی وغیرہ اور ان کے درمیان ترجیحات کا اشتراک ہوا۔ بلا شبہ بلوچستان کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں پنپنے نہیں دیا۔ لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں سر اٹھالیتے ہیں۔ داعشی گروہ نے افغانستان کی نئی حکومت کے دوران بھی حملے جاری رکھے، حکومتی وابستگان کو ہدف بنایا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کابل حکومت نے ان کی خوب سرکوبی کر رکھی ہے۔ اور مسلسل ان کے تعاقب میں ہے۔ موجودہ افغان فورسز معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے، اس بنا پر اس گروہ کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں داعش گروہ کے ننگر کار کے معروف کمانڈر مولوی عبدالرحیم مسلم دوست نے حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے گروہ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ نئی افغان حکومت ہر لحاظ سے اس گروہ کے صفایا پر قادر ہے۔ جن کے مزید استحکام کے بعد کسی گروہ کے لیے ٹھکانہ نہ رہے گا۔
اشرف غنی رجیم کو ایران نے افغان افراد پر مشتمل اپنے تربیت یافتہ گروہ استعمال کرنے کی پیشکش کی تھی، جس پر طالبان نے خفگی کا اظہار کیا۔ حالاں کہ تب وہ حکومت میں نہ تھے اور قابض بیرونی افواج کے خلاف لڑرہے تھے۔ چناں چہ تہران پر واضح کردیا تھا کہ وہ داعشی گروہ سے نمٹنے کی اہلیت و قوت رکھتے ہیں۔ آمدہ معلومات کے مطابق ایران کے پاکستان سے متصل سرحدی علاقے میں بعض مسلح گروہوں کی آماج گاہیں قائم ہیں۔ تربت، پنجگو راور نوشکی واقعات کا رونما ہونا اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ آمدہ معلومات کے مطابق پنجگور و نوشکی واقعات کے بعد وسط فروری میں ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے ایک مقام ’’نیک شار‘‘ میں کالعدم بی ایل ایف، اور بی این اے سے وابستہ بلوچ شدت پسند کمانڈروں کا اجلا س ہو ہے۔ اس اجلاس میں ٹی ٹی پی کی نمائندگی کمانڈر مخلص یار محسود نے کی۔ ایرانی اور انڈین انٹیلی جنس اداروں کے لوگ بھی شریک تھے۔ جس میں مشترکہ کام، باہمی رابطہ کاری وغیرہ کے نکات پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میںکوئٹہ، مضافات اور شمالی بلوچستان میں کارروائی کی اسٹرٹیجی پرغورو خوص ہوا ہے۔ افغانستان کے علاقے نمروز سے بھی چند افراد شریک ہوئے جو بلوچستان کی شدت پسند تنظیموں سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ فاطمہ جناح روڈ پر فائرنگ اور بم دھماکا اس اجلاس کے بعد ہوا ہے۔ پنجگور، نوشکی سانحات کے بعد پاکستانی انٹیلی جنس اداروں پر مزید گوشے واضح ہوئے ہیں۔ اور کمانڈر 12کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے انتظامی حکام کے ساتھ ایک ہمہ گیر اور طویل ملاقات کے بعد حکومتی و انتظامی نقائص اور حقائق بھی سامنے آئے ہیں۔ جسے رہنماء بناتے ہوئے امن کی جانب اچھی پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کا منصب سنبھالنے کے بعد اچھے نتائج کی توقع کی جارہی ہے۔ دراصل بلوچستان کی سیاسی اتھل پتھل اور نمایاں خامیاں و کمزوریاں بھی بد امنی کی وجوہات میں سے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یقینا نوجوان آسانی سے بد راہ و بدظن کیے جاسکتے ہیں۔ بہر حال بلوچستان میں حکومتی بگاڑ کے تناظر میں تادیبی کارروائی بھی ہوئی ہے۔ دریں اثناء حکومت پاکستان درون خانہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کا آوازہ ہے۔ اچھی بات ہے کہ جلد نتیجہ پر پہنچ کر امن کا راستہ نکالا جائے۔ چناں چہ ساتھ ہی بلوچ شددت پسندوں سے روابط کی اہمیت بھی پیش نظر رہے۔