مغرب نے زندگی کے ہر شعبے میں جدید علوم متعارف کرائے پر امن اقتدار کی منتقلی یقینی بنائی

583

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) مغرب نے زندگی کے ہر شعبے میں جدید علوم متعارف کرائے‘ اپنے ہاں پرامن اقتدار کی منتقلی یقینی بنائی‘ اقوام متحدہ سپر پاور کے عزائم کی تکمیل کا آلہ کار ہے‘سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو جنم دیا‘ ترقی پذیر ممالک کو غریت میں دھکیل دیا‘ اللہ تعالیٰ دنیا کا انتظام اہل انسانی گروہ کے سپرد کرتا ہے ‘ مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور اور روزنامہ جنگ کے مدیر ثروت جمال اصمعی اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مغرب کے عالمگیر غلبے کے کیا اسباب ہیں؟‘‘ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ قوموں کے عروج اور زوال کے جو قوانین و اسباب انسانی تاریخ کی روشنی میں ہمارے سامنے آتے ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی دنیا کا انتظام اسی انسانی گروہ کے سپرد کرتا ہے جو اس کے ہم عصر دوسرے انسانی گروہوں کی نسبت اس ذمے داری کو نبھانے کی سب سے زیادہ اہلیت رکھتا ہے‘ یہ صلاحیت اللہ کو اپنا رب اور حاکم مطلق ماننے والوں میں ہو تو انسانی دنیا کی امامت و قیادت ان ہی کو عطا کی جاتی ہے جبکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں یہ منصب اس انسانی گروہ کو دیا جاتا ہے جو دنیاوی معیارات کے لحاظ سے دنیا کا انتظام سنبھالنے کی سب سے زیادہ اہلیت کا حامل ہوتا ہے‘یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہماری گاڑی کا انجن خراب ہوجائے تو ہم حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ماہر مکینک تلاش کرکے اپنی گاڑی اس کے سپرد کرتے ہیں خواہ ایمان و اخلاق کے لحاظ سے اس کا معاملہ اطمینان بخش نہ ہو‘ اہل مغرب کے عالم گیر غلبے کی یہی اصل وجہ ہے کہ انہوں نے دنیاوی پیمانے کے لحاظ سے اپنے آپ کو دنیا کا نظام چلانے کا سب سے زیادہ اہل ثابت کیا ہے‘ انہوں نے علم و تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاست و معیشت، تعلیم و تدریس، قانون و انصاف ، نظام حکمرانی و عدالت سمیت ہر شعبہ زندگی میں قائدانہ صلاحیت اور مہارت حاصل کی ہے اور 2، ڈھائی صدی سے اسے قائم بھی رکھا ہوا ہے‘ ان کی ہزاروں جامعات دن رات زندگی کے ہر شعبے میں تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں‘ہزاروں اسکالرز نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ انہوں نے مستحکم نظام حکومت وضع کیا ہے‘ اپنے اختلافات سڑکوں کے بجائے پارلیمان میں طے کرنے کا ہنر انہوں نے بخوبی سیکھ لیا ہے اور انتخابات کے نتائج کے مطابق کسی جھگڑے، فساد کے بغیر پرُامن انتقال اقتدار ان کے سیاسی نظام کا لازمی حصہ ہے‘ بلاشبہ ان کے بنائے ہوئے نظام میں سنگین خامیاں اور نقائص بھی ہیں کیونکہ بڑی طاقتوں کی جانب سے جمہوریت کے پردے میں استعماری عزائم پورے کیے جاتے ہیں‘ جنگ و جدل اور خون ریزی سے دنیا کو نجات دلانے کے بجائے اسے فروغ دیا جاتا ہے‘ اقوام متحدہ کا ادارہ ابتدا ہی سے سپر پاور کے عزائم کی تکمیل کا آلہ کار ہے‘ سرمایہ دارانہ معاشی نظام پوری دنیا میں بدترین ارتکاز دولت کا سبب ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی آدھی دولت ایک فی صد آبادی کے قبضے میں جاچکی ہے اور بتدریج چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے‘ یوں امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا چلا جا رہا ہے‘ اس نظام کے تحت کثیرالقوامی کمپنیوں کو دنیا بھر کے لوگوں کے شدید معاشی استحصال کے کھلے مواقع حاصل ہیں‘ سرمایہ داری نظام نے اپنے مقاصد کی خاطر عورت کو گھر سے نکل کر معیشت کی چکی میں جوت دیا ہے جس کے نتیجے میں خاندانی نظام تقریباً تباہ ہوچکا ہے۔ یہی اسباب مغرب کی بالادستی کو بالآخر ختم کرکے رہیں گے لیکن کیونکہ دنیا کو چلانے کے لیے اب تک ان سے بہتر کوئی انسانی جماعت میدان میں نہیں اتری ہے اور اس کے مقابلے میں سائنسی انداز میں اس سے بہتر کوئی پروگرام پیش نہیں کیا جاسکا ہے اس لیے مغرب کا عالم گیر غلبہ قائم ہے۔ ثروت جمال اصمعی نے واضح کیا کہ اسلام یقینی طور پر مغربی نظام زندگی کا بہترین متبادل ہے لیکن دنیا پر اس کا غلبہ اسی صورت میں ممکن ہے جب مغرب کی ذہنی مرعوبیت سے یکسر آزاد مسلم مفکر اور محقق ایک طرف مغربی نظاموں کی خامیاں اور تباہ کاریاں سائنسی بنیاد پر مدلل تنقید کے ذریعے سے واضح کریں اور دوسری طرف اسلام کا معاشی، سماجی، سیاسی، عدالتی، تعلیمی اور حکومتی نظام جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کریں‘ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم کسی ایک ملک میں اس نظام کو پوری طرح نافذ کرکے دکھایا جائے۔ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ اگر ہم مغرب سے مراد یورپ لیں تو امریکا گو کہ جغرافیائی طور پر منسلک نہیں ہے تاہم پہلی جنگ عظیم سے امریکا یورپ کا اتحادی اور اس کا لازمی جز ہے اور جب ہم مغرب کہتے ہیں تو اس میں امریکا بھی شامل ہے‘ مغرب کے غلبے کا آغاز 16 ویں صدی سے ہوا‘ اس سے قبل کا کم و بیش 800 سال کا عرصہ مسلمانوں کا تھا اس دوران زندگی کے ہر شعبے میں ترقی ہوئی‘ مسلم امپائر کے زوال کے بعد یورپ نے ترقی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب کے عالمگیر غلبے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ یورپی فلاسفر نے دنیا کو نئے سیاسی نظریات دیے اور اس کو اپنے مفادات کے تابع کیا‘ دنیا کی دیگر اقوام پر غلبہ برقرار رکھنے کے لیے انفارمیشن سے شروع ہونے والے دور کو ڈس انفارمیشن تک پہنچا دیا گیا‘ یورپ کی معاشی ترقی، اپنے لیے منڈیوں کی تلاش اور کامیاب نئے معاشی نظریات دنیا کی دیگر قوموں پر اس کے غلبے کا سبب بنے‘ یورپ نے عالمی معیشت کو اسی طرح اپنے قابو میں رکھا کہ دوسری اقوام اس کے مقابلے میں نہ آسکیں‘ یورپی اقوام نے اپنے آپس کے تعلقات میں وقتاً فوقتاً ہونے والی کشیدگی کے باوجود اپنا معاشی لائحہ عمل ایک ہی رکھا جو تیسری دنیا کے معاشی استحصال پر مبنی تھا‘ اس کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ ابلاع عامہ کے شعبے پر مغرب کا غلبہ ہے ‘ اس کے ذریعیاپنے نظریات کی ترویج واشاعت کر رہی ہے‘ اس غلبے کا نتیجہ ہے کہ یورپ نے تھرڈ ورلڈ کی مذہبی و معاشرتی اقدار، سیاسی سوچ اور ادب سمیت تمام معاملات پر اپنے اثرات ڈالے ہیں‘ یہاں تک غیر ترقیاتی اقوام کے سوچنے کے انداز تک کو بدل ڈالا‘ دنیا ہر قسم کی معلومات اور اس کے پس منظر کے لییمغربی میڈیا پر انحصار کرتی ہے‘ اس بات کو جانے کے باوجود کے اس میں کس حد تک سچائی اور غیر جانبداری ہے‘ ہم اپنی رائے اور سوچ مغربی میڈیا پر نشرہونے والی خبروں یا اس پر پیش کیے جانے والے نظریات کی بنیاد پر بناتے ہیں۔