بعض ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جنہیں سننے والوں کے دل بھی لرز کر رہ جاتے ہیں۔ جس کے بارے میں ہم توقع بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی موجود ہوں گے جن کے افعال سے ظالم درندے بھی شرما جائیں۔ سرگودھا کی چند دن پہلے کی پولیس رپورٹ ہے کہ پولیس نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اغوا ہونے والی لڑکی جو سرگودھا کے تھانہ شاہ پور کی حدود سے 21 اگست 2020ء کو اغوا ہوئی، لڑکی کے والد کی مدعیت میں 28 اگست کو مقدمہ درج کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ میں ثوبیہ بتول کی برآمدگی کیس کی سماعت ہوئی۔ جب عدالتی حکم پر ثوبیہ بتول کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا گیا تو مطلوبہ مغویہ تو نہ مل سکی البتہ اس آپریشن کے نتیجے میں سرگودھا ڈویژن کے مختلف علاقوں سے 151 لڑکیاں برآمد ہوئیں۔ ان میں سے 21 لڑکیاں قحبہ خانوں سے برآمد ہوئیں جس پر جسٹس مقبول باقر بھی حیران تھا اور حیرانی میں استفسار کیا کہ جو اتنی اغوا شدہ لڑکیاں برآمد ہوئی ہیں کیا ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج تھیں؟ اگر درج تھیں تو پولیس نے انہیں ڈھونڈا کیوں نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ان لڑکیوں کے اغوا ہونے یا جلد بازیاب نہ ہونے میں پولیس کی کوتاہی بھی ملوث ہو لیکن کیا اس سب میں کسی نہ کسی طرح ان لڑکیوں کی کوئی اپنی بھی بے احتیاطی شامل نہ ہو گی؟
اب دوسرا قصہ نور مقدم کیس کا ملاحظہ کریں۔ نور مقدم جو کے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی تھی۔ اسے 20 جولائی2021ء کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں ایک گھر میں قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل کوئی عام نہیں بلکہ سفاکیت و بہیمیت کا بدترین روپ تھا۔ نور مقدم کو اس کے بوائے فرینڈ ظاہر جعفر نے قتل کرنے کے بعد اس کے سر کو گردن سے کاٹ کر جسم سے الگ پھینک دیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ نور مقدم ننگے پاؤں گیٹ کی طرف بھاگتی ہے، ہاتھ جوڑ کر ملزم کی منت سماجت کرتی ہے لیکن ملزم اسے زبردستی گھسیٹ کر گھر کے اندر لے گیا پھر دوبارہ فرار ہونے کی کوشش میں گھر کے فرسٹ فلور سے چھلانگ بھی لگائی لیکن فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکی اور بعد میں پولیس کو اسی گھر سے اس لڑکی کی لاش سر، دھڑ الگ الگ صورت میں ملی۔ نور مقدم کا باپ ایک بااثر آدمی تھا جس کی وجہ سے اس قتل کے مرکزی ملزم کو 24 فروری 2022ء کے دن عدالت سے سزائے موت بھی سنا دی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس قتل کے ہونے کی نوبت کیسے آئی۔؟
ان دونوں واقعات کا تجزیہ میں ایک مشہور مثال کی یاد دہانی کروانا چاہوں گی کہ ایک بھیڑیا روز بکریوں کے ریوڑ کے پاس آتا ہے۔ انہیں آزادی حاصل کرنے پر اکساتا ہے۔ انہیں شعور دلاتا ہے کہ یہ چرواہا ہر وقت تمہیں اپنی نگرانی میں رکھتا ہے کہ تم اپنی مرضی سے ادھر ادھر گھوم پھر نہ سکو۔ یہ تمہیں اپنی قید میں رکھنا چاہتا ہے۔ تم اس کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرو، خوب احتجاج کرو، یہ چرواہا کب تک تمہارے احتجاج کے سامنے کھڑا رہ سکتا ہے؟ باہر نکلو، گھومو پھرو، اپنی مرضی کی زندگی جیو۔ شروع میں تو بکریاں کچھ جھجکیں لیکن آہستہ آہستہ بھیڑیے کی دلفریب باتیں ان کے دلوں کو چھونے لگیں۔ پھر کچھ دیدہ دلیر بکریوں نے بغاوت کا علم بلند کر کے چرواہے کی قید سے راہ فرار اختیار کی۔ ان کو فراریت پر آمادہ کرنے والا بھیڑیا پہلے ہی ان کی تاک میں بیٹھا تھا۔ اس نے ان بکریوں کو اپنا شکار بنایا۔ جو بکریاں پہلے چرواہے کی نگرانی اور حفاظت کی وجہ سے اس کی پہنچ سے دور تھیں اب وہ اس کے پیٹ کا ایندھن بن گئیں۔
اب دیکھیں! سرگودھا سے جو 121 لڑکیاں برآمد ہوئیں یا نور مقدم جو ملزم کے گھر میں قتل ہوئی ہے، کیا یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہو گیا؟ یہ 121 لڑکیاں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں یا گھروں سے اغوا کی گئیں؟ یا پھر کن وجوہات کی بنا پر اغواء کی گئیں؟ کیا ان کے اغوا ہونے یا ایسے عناصر کے ہتھے چڑھنے میں ان کا کوئی اپنا حصہ بھی تھا؟ کیا یہ اپنے محرم مردوں کی محافظت میں تھیں اور گھروں سے باہر باوقار طریقے سے نکلتیں تھیں جیسا کہ ہمارے مذہب کا حکم ہے؟۔ ہو سکتا ہے ان میں ایسی لڑکیاں بھی موجود ہوں جو نور مقدم کی طرح خود آزادی کی متمنی تھیں۔ جولائی میں قتل ہونے والی نور مقدم نے اپنے قتل ہونے سے صرف 4 ماہ پہلے ہی تو مارچ میں آزادی خواتین کے احتجاج میں پلے کارڈ اٹھائے زور وشور سے نعرے لگا رہی تھی۔ آٹھ مارچ کو منایا جانے والا یہ وہ یوم خواتین ہے جس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ ہوا یہ کہ امریکا میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل کے متعلق احتجاج کیا لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑ سوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا۔ پھر 1908ء میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا۔ اس طرح عالمی یوم خواتین منایا جانے لگا جو پہلی بار 28 فروری 1909ء کو منایا گیا اور پھر
1913ء سے 8 مارچ کو منایا جانے لگا۔ امریکا سے پھوٹنے والے اس عالمی یوم خواتین کا اسلام دشمن این جی اوز اور موم بتی مافیا کی آنٹیوں نے ہمارے اسلامی جمہوری ملک میں بھی رواج ڈال کر ہی چین لیا اور ساتھ ظلم یہ کیا کہ ہمارے ملک میں اس دن کی نوعیت اور مطالبات بالکل ہی بدل کر رکھ دیے۔ پلے کارڈز پر شرمناک جملے لکھ دیے جاتے ہیں، عورتوں کے کپڑے لہرانے جیسی بیہودہ حرکتیں کی جاتیں ہیں، عورت کو مرد کی محافظت سے نکلنے پر اُکسایا جاتا ہے، عورت کو بغاوت اور گھر توڑنے کی طرف آمادہ کیا جاتا ہے، بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کرنے جیسے قابل فخر فعل سے منہ موڑنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اپنے شوہر کی خدمت کی سعادت کو ظلم تسلیم کروایا جاتا ہے، جب کہ ہمارا مذہب تو کہتا ہے کہ اگر عورت اپنی گھریلو ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کرتی ہے تو اس کا مقام و مرتبہ سرحد پر کھڑے مجاہد سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسی ذمے داری کی ادائیگی ہی سے تو ہماری عورت محفوظ ہوگی، ہمارے خاندان مضبوط ہوں گے اور ہمارا معاشرہ مستحکم ہوگا۔ ورنہ دوسری طرف یہ بھیڑیے ہماری عورتوں کو مردوں کی قوامیت و محافظت سے نکال کر اپنا شکار بنا لیں گے اور ہماری بیٹیاں سیپ کے قیمتی موتی بننے کے بجائے خدانخواستہ قبہ خانوں سے بازیاب ہونے لگیں گی یا پھر نور مقدم کی طرح سفاکیت اور درندگی سے مار دی جائیں گی اور ان کے قوام کو اس بارے میں علم بھی نہ ہوگا۔ ہمارے مربوط و مضبوط خاندانی نظام کے دشمن ہمیں مختلف ایام کے دلفریب سنہرے اوراق میں لپیٹ کر چکنا چور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے رب کے ہدایت نامہ پر عمل پیرا ہوکر دشمن کی ان چالوں کو ناکام کرنا ہے۔ ان شاء اللہ۔