ملازمت سے نکالنا قومی جرم قرار دیا جائے

395

حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے عارضی / ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ ملازمت سے متعلق ایک مقدمہ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کسی بھی ادارے کا مالک یا منتظم بغیر کسی حکم نامہ کے اپنے ملازم کو زبانی طورپر نوکری سے فارغ نہیں کرسکتا۔ملازمت سے زبانی فراغت پاکستان کے لیبر لاء اور سروس لاء کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔یہ اقدام اچھے انتظامی اور فطری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔قانون کا یہ بنیادی اصول ہے کہ کسی کے خلاف بھی کوئی سخت اقدام اٹھانے سے قبل اسے جواب دینے اور اپنے موقف کے دفاع کا حق دیا جائے۔ ہر ادارہ کسی کو بھی ملازمت پر رکھنے سے پہلے اسے تحریری تقررنامہ دینے کا پابند ہے،جس پر مکمل شرائط و ضوابط درج ہوں۔
اس فیصلے نے معروف قانوندان مرحوم رفیع اللہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی یاد تازہ کردی۔روزنامہ جسارت کے لیکچر پروگرام کے عنوان’’برطرفی اور فطری انصاف کے تقاضیـ‘‘ میں انہوں نے کہا تھا کہ عام طور پر ایک قسم کی برطرفی کا حکم نامہ وہ بھی ہوتا ہے ،جس میں کسی بھی ملازم کو یہ کہا جاتا ہے کہ ادارے کواب آپ کی ملازمت کی ضرورت نہیںہے۔1989 سے قبل اس قسم کے حکم ناموں کو درست مانا جاتا تھالیکن1989 میں جب سندہ ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا کہ یہ حکم نامہ درست نہیں بلکہ برطرفی کے حکم نامے میںوہ مخصوص وجوہات تحریر ہونی چاہئیں جو کہ قابل یقین بھی ہوں۔مذکورہ فیصلہ پاکستان لیبر کیسز1989 کے ایڈیشن میں صفحہ نمبر187 پر موجود ہے۔زبانی برطرفی یا گیٹ اسٹاپ سراسر غیر قانونی عمل ہے۔جس کی کسی بھی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ورک چارج کا تصورسرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں موجود ہے، جبکہ نجی اداروں میںایسے ملازمین کوعارضی ملازم کہا جاتا ہے۔ ایسے ملازمین کی تقرری یا بر طرفی تحریری طور پر ہونالازم ہے۔خواہ وہ ادارہ سرکاری ہو،نیم سرکاری ،کارپوریشن ہو یا نجی۔ایک انسان کی حد ملازمت 42 سال ہے۔یعنی تقرری اگر 18 سال میں ہوئی اور ریٹائرمنٹ 60 سال میں تو ایسے انسان نے اپنی عمر کا سنہری دور اپنی ملازمت یا ادارے کو دیا تووہ انسان عارضی ملازمت یا ورک چارج کی بنیاد پران تمام سہولیات اور فوائد سے کیوں محروم رہے۔۔ایسے ملازمین کو مستقل نہ کرنا کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔
برطرفی یا برخواستگی تو ایک عام اصطلاح ہے لیکن ملازمت کا خاتمہ دو صورتوں میں ممکن ہے۔(الف) برطرفی یا برخاستگی (ب) استعفیٰ۔ جب کہ مالکان کی جانب سے کسی بھی ملازم کی ملازمت کے خاتمے کی پانچ صورتیں ہو سکتی ہیں۔(1) سادہ برطرفی (2) برخواستگی(3) بے دخلی (4) ڈسچارج (5) چھانٹی۔
نمبر ایک اور پانچ یعنی برطرفی اور چھانٹی میں بد عملی کا کوئی پہلو کار فرما نہیں ہوتالیکن آجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دونوں قسم کی ملازمت سے خاتمے کا تحریری حکم نامہ جاری کرے اور اس حکم نامے میں ان وجوہات کا بھی ذکر کرے جن کی بنیاد پر برطرفی یا چھانٹی کی جا رہی ہے۔نمبر2،3 اور4 یعنی برخواستگی، بے دخلی اور ڈسچارج وہ احکامات ہیں جو کسی نہ کسی بد عملی کا مرتکب ہونے پر کسی ملازم کے لیے جاری کیے جاتے ہیںاور اس طرح کے کوئی احکامات جاری کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ فطری انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔فطری انصاف کے تقاضے پورے کرنا اتنا اہم ہے کہ یہ اصول تمام عدالتی اور نیم عدالتی نظام بلکہ باہمی انسانی تنازعات میںاسی اصول کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ حاصل مطلب یہ ہوا کہ برطرفی سے قبل انصاف کے تقاضے پورے کرنا لازمی ہے۔جیسے سپریم کورٹ نے مختلف سرکاری اداروں سے برطرف کیے گئے 16 ہزار سے زائد ملازمین کی نظر ثانی کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے انہیں از خود نوٹس کے تحت بحال کردیا۔کیا کسی ادارے کے سربراہ یا مل مالکان کا سزا اور جزا کے عمل سے گذر ہوا؟ ہمیشہ محنت کش طبقہ ہی قربانی کا بکرا بنتا ہے۔نجی ادارے تو دور بلکہ سرکاری اداروں میں 35 سالوں سے ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں۔ان کے لیے یونین سازی ، بھرتی کا لیٹر یا ان کے روزگار کو مستقل کرنے کا تو پلان ہی نہیں کیا گیا ہے۔متعدد اداروں کے ڈیلی ویجزاس صورتحال سے مایوس ہیں۔ حکمرانوں کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ملازم مایوسی کی اس دلدل میں چلا جائے جہاں سے انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ برطرفی سے قبل انصاف کے تقاضے پورے کرنا لازمی ہے۔ ورنہ اداروں کی انتظامیہ یا ادارے کے مالکان کو سپریم کورٹ کے ملازمت سے فارغ یا برطرفی کے بعد بحالی کے فیصلوں کو قومی جرم سمجھنا چاہیے۔