(یوکرین شدید بحرانی حالت میں ہے۔ امریکا اور یورپ نے اُس کی مدد کا وعدہ نہیں نبھایا۔ امریکا اور یورپ نے اس بحران میں جو رویہ اپنایا اُس نے بہت کچھ طشت از بام کردیا ہے۔ مغرب اپنے آنگن میں جنگ اور تباہی نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ ساری تباہی تیسری دنیا کے ممالک تک محدود رہے، بس اُنہی کو دبوچا جاتا رہے۔ امریکا کی واحد سپر پاور کی پوزیشن اب قدرے کمزور ہوچکی ہے۔ یوکرین کے بحران کے تناظر میں امریکی قیادت کی شدید منافقت اور اِس کے اثرات کے حوالے سے احمد آباد (بھارت) سے شایع ہونے والے اخبار ’’گجرات سماچار‘‘ کی 28 فروری 2022 کی اشاعت کے اداریے کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔)
………
بغیر ہوا کی ٹیوب کا ٹائر؟ بغیر انجن کی گاڑی؟ بغیر دانت کا سانپ؟ سمجھ میں نہیں آتا امریکا کو اب کیا نام دیا جائے۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر اب تک امریکا اور یورپ کے کسی بھی ملک نے یہ عندیہ نہیں دیا کہ وہ اپنی فوج یوکرین بھیجے گا۔ امریکا اور برطانیہ تو صاف کہہ چکے ہیں کہ امریکا اپنے فوجی یوکرین نہیں بھیجے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ستم ظریفی بھی فرمائی ہے کہ امریکا یوکرینی فوجیوں کو تربیت دے گا۔ یوکرین معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) کا رکن نہیں مگر ناٹو کے ترجمان نے ایسا راگ الاپا تھا کہ جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا، ناٹو کے رکن ممالک کی افواج اُس پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ناٹو کو اتحاد کے طور پر اور امریکا و برطانیہ کو ریاست کے طور پر پیوٹن کے اسکول میں داخلہ لے کر بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ پیوٹن کو بہت پہلے سے معلوم تھا کہ امریکا محض ڈھولکی بجاتا رہے گا، راگ الاپتا رہے گا۔ ایسی ڈھولکی جنگ سے پہلے کسی اور طرح سے بجتی ہے اور جنگ شروع ہوجانے پر کسی اور طرح سے۔ اپنی افواج کو واپس بلاکر افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنے کے بعد امریکا بغیر دانت کے سانپ جیسا ہوگیا ہے۔ اب اُس میں وہ پہلا سا زہر نہیں۔ اب اُس کی دھمکیوں اور گیڈر بھبکیوں سے کوئی نہیں ڈرتا۔ صدر جو بائیڈن کی پریس کانفرنس کی بھی اب وہ شان نہیں رہی جو کبھی واحد سپر پاور کے صدر کی پریس کانفرنس کی ہوا کرتی تھی۔ اُن کی باتوں میں بھی وہ شان، وہ تمکنت نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب امریکا میں طاقت ہی نہیں رہی۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ پہلی سی بات نہیں رہی۔ کوئی بھی بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہے کہ صدر بائیڈن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا ہے۔
امریکا اور یورپ نے یوکرین کے بحران کے حوالے سے بہت کچھ کہا تھا مگر روسی صدر پیوٹن کو اندازہ تھا کہ یہ صرف باتیں ہیں۔ یوکرین کے لیے امریکا و یورپ کی طرف سے حمایت کا اعلان کس حد تک مضحکہ خیز تھا اِس کا اندازہ پیوٹن کو بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے حوالے سے امریکی صدر نے ایک ایسے نجومی کا کردار ادا کیا ہو جسے کچھ بھی آتا جاتا نہ ہو، محض بڑھکیں مار کر تسلیاں دیتا ہو۔ یوکرین پر روس کی چڑھائی سے قبل انہوں نے شیر آیا، شیر آیا کا شور مچایا اور جب شیر آگیا تو خود پتلی گلی سے نکل لیے۔ یوکرین کو پلک جھپکتے میں اندازہ ہوگیا کہ جو کچھ امریکا اور یورپ نے کہا تھا وہ طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ جب امریکا نے مشوروں سے نوازنا شروع کیا تب یوکرین نے کہا کہ اپنے مشورے اور تجاویز اپنے پاس رکھیے۔ ہمیں مشوروں کی نہیں، ہتھیاروں اور گولا بارود کی ضرورت ہے۔ روسی حملوں سے قبل یوکرین کی قیادت نے بھارت، پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک سے اپیل کی تھی کہ کسی نہ کسی طور روس کو طاقت کے مظاہرے سے روکیں۔
اس وقت کوئی بھی ملک یوکرین کے ساتھ نہیں۔ کوئی ایک دوست ملک بھی آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ امریکا اور یورپ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ جنگ کی بھٹی میں اپنے فوجی نہیں جھونک سکتے۔ یورپ تو ایسا بالکل نہیں کرسکتا کیونکہ افغانستان، عراق اور شام کے معاملے میں یورپی ممالک بہت ذلیل ہوئے ہیں۔ ایسے میں کیا ہوسکتا ہے؟ روس کی بس ایک ہی شرط ہے، اُس کی مرضی کے بندے کو یوکرین کا وزیر اعظم بنایا جائے۔ روسی قیادت یوکرین میں کٹھ پتلی حکومت چاہتی ہے۔ پیوٹن ایک زمانے سے یوکرین کی سرحد پر کھڑے ہیں اس لیے اُن کا سایا یوکرین کے سنگھاسن پر تو پڑنا ہی ہے۔ جب صورتِ حال نارمل ہوجائے گی یعنی روس حملے ختم کرے گا، فوجی ہٹائے گا تب یوکرین میں جو حکومت بنے گی وہ روس کے ہاتھوں میں کھلونے جیسی ہوگی۔ روس نے جدید ترین ہتھیار تو استعمال ہی نہیں کیے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ کھیل جلد از جلد اور کم خرچ میں مکمل ہو جائے۔ اگر یہ لڑائی مزید کچھ دن اور جاری رہی تو زیادہ خون خرابہ ہوگا اور فریقین کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوگا۔ صورت ِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین نے کہا تھا کہ معاملات زیادہ بگڑنے پر تیسری عالمی جنگ بھی چھڑسکتی ہے۔ خیر، اس کے تو آثار نہیں کیونکہ امریکا اور یورپ اس جنگ میں کودے ہوتے تو کوئی انتہائی خطرناک صورت ِ حال پیدا ہوسکتی تھی۔
یوکرین کے بحران سے اب یہ بات بھی پوری دنیا کی سمجھ میں آچکی ہے کہ امریکا جگت قاضی کی حیثیت کھوچکا ہے۔ امریکا کسی بھی درجے میں روس سے ٹکرانے کا خواہش مند نہیں کیونکہ ایسا ہو تو سب سے زیادہ فائدہ چین کو پہنچے گا۔ روس بھی جانتا ہے کہ چین کو فائدہ پہنچانے والی کوئی بھی صورت ِ حال پیدا کرنے سے امریکا گریز کرے گا۔ اس کے باوجود روسی قیادت امریکا کے لیے چیلنج کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور اِس شکل کو برقرار بھی رکھنا چاہتی ہے۔ امریکا نے یوکرین کے معاملے میں جو پسپائی اختیار کی ہے وہ دنیا کو بہت کچھ بتاچکی ہے۔ روس محض ہتھیاروں کے معاملے ہیں خود کفیل نہیں بلکہ عقلِ سلیم کے معاملے میں گیا گزرا نہیں۔ روس نے امریکا سے براہِ راست تصادم مول نہیں لیا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا اور یورپ کی پسپائی روس کے لیے فتح بالائے فتح والا معاملہ ہے۔
امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی چاہتے تھے کہ یوکرین پر روسی حملہ نہ ہو مگر خیر، چاہ کر بھی وہ یوکرین کو اسلحہ اور دیگر فوجی ساز و سامان فراہم نہ کرسکے۔ ہاں، اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے کے معاملے میں وہ پیچھے نہیں رہے۔ چاروں ریاستوں نے روس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ چاروں صرف میڈیا کی سطح پر شور مچارہے ہیں۔ دوسری طرف یوکرین کی قیادت نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ پٹرول بنائیں اور روسی افواج کے خلاف مزاحمت کریں۔ امریکا نے یوکرین کے لیے لاکھوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان پر جب تک عمل ہوگا تب تک یوکرین میں بہت کچھ ختم ہوچکا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ روسی صدر پیوٹن چاہتے ہیں کہ جنگ کے شعلے مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی بھسم کرنا شروع کریں۔