(یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے کئی ممالک اور خطوں کے لیے عجیب کیفیت پیدا کردی ہے۔ مسلم ممالک مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ)، شمالی افریقا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، وسطِ ایشیا اور مشرقی یورپ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ دنیا دیکھنا چاہتی ہے وہ کس طرف جاتے ہیں۔ احمد آباد (بھارت) کے اخبار ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کی 27 فروری کی اشاعت کا اداریہ پیش خدمت ہے۔)
………
یوکرین کی آبادی کم و بیش ساڑھے چار کروڑ ہے جس میں مسلمان ایک تا دو فی صد ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملوں سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ مغربی دنیا نے روس پر متعدد پابندیاں عائد کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا مغرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ باقی دنیا کے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ امریکا اور مغرب میں سے کسی کو بھی مکمل خوش یا مکمل ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ 23 فروری کو سعودی عرب نے اقوام متحدہ کے ایک غیر رسمی اجلاس میں روس کا نام لیے بغیر یا اُس پر براہِ راست تنقید کیے بغیر یوکرین کے بحران کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے پر زور دیا تھا۔ سعودی عرب نے فریقین سے کشیدگی کا گراف نیچے لانے کی اپیل کی تھی۔
میڈیا کی بھرپور توجہ یوکرین پر ہے۔ ایسے میں خام تیل اور گیس کے نرخوں میں ہوش رُبا اضافے پر لوگوں کا دھیان کم ہی گیا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں قدرتی گیس کا نرخ سات سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
چند برسوں کے دوران سعودی عرب اور روس کے درمیان مختلف معاملات میں اشتراکِ عمل حیرت انگیز حد تک بڑھا ہے۔ یہ دونوں خام تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں۔ تیل کی عالمی تجارت پر یہ دونوں اپنی اپنی طرف سے رسد کو کنٹرول کرکے اثرات انداز ہوتے رہے ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔ فروری کے ابتدائی دنوں میں امریکی صدر جوزف بائیڈن نے سعودی عرب پر زور دیا تھا کہ وہ تیل کی رسد بڑھائے مگر سعودی عرب نے ایسا نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو ایک طرف عالمی منڈی میں تیل کے نرخ قابو میں رکھنے میں کامیابی ملی ہوتی اور دوسری طرف روس کو بھی زیادہ فائدہ نہ پہنچا ہوتا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی قوت کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا ہے کہ سعودی عرب امریکا کی طرف جھکاؤ ختم کرنے کی طرف آگیا ہے اور روس سے اس کے تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ 2015 کے موسمِ گرما میں سعودی ولی عہد اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ تب سے اب تک دونوں کئی بار ملے ہیں۔ جوزف بائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو کہا کہ وہ صرف اپنے ہم منصب سے ملیں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔ ان سے امریکی وزیر دفاع ہی ملیں گے۔
دی انٹرسیپٹ کی ایک رپورٹ میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئر فیلو بروس رائڈل نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد اور صدر پیوٹن میں بہت کچھ مشترک ہے۔ اندرون اور بیرونِ ملک دونوں ہی اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں ہی پڑوسی ممالک پر حملے کرتے ہیں۔ دونوں ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بلند ہوتے رہیں۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی سے جن ممالک کے لیے خاصی موافق صورت ِ حال پیدا ہوگی ان میں سعودی عرب بھی نمایاں ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بڑھیں گے اور اس کا بلا واسطہ فائدہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو پہنچے گا۔ سعودی عرب پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ اُسے یوکرین کے بحران سے متعلق کچھ کہنے کا حق نہیں اور اخلاقی جواز بھی نہیں بنتا کیونکہ وہ خود کئی سال سے یمن کو تاراج کیے ہوئے ہے۔
ترکی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے تاہم یہ ملک آئینی طور پر اسلامی نہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان جب بھی کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے رابطہ کرتے ہیں۔ ترکی ناٹو کا رکن ہے۔ روس سے S-400 میزائل سسٹم خریدنے پر امریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ جب سے جوزف بائیڈن امریکی صدر بنے ہیں تب سے ترکی اور امریکا کے تعلق خراب ہوئے ہیں۔ یوکرین پر روسی افواج کے حملے کے بعد ترک صدر نے روسی ہم منصب سے فون پر بات کی اور خطے کی صورت ِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ صدر اردوان کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ہمیشہ پیوٹن سے بات چیت کو ترجیح دی ہے۔ اس بار بھی بات چیت کے حوصلہ افزاء نتائج متوقع ہیں۔ ترک صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی سلامتی اور سالمیت کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی کارروائی درست نہیں اور یہ کہ ترکی کا یہ موقف اصولوں کی بنیاد پر استوار ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یوکرین کا بحران مِنسک معاہدے کے تحت بات چیت کے ذریعے ختم کیا جانا چاہیے۔ یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والی صورت ِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اردوان کا کہنا ہے کہ تصادم سے کسی کا بھلا نہیں ہونے والا۔ بات چیت ہی پر انحصار کرنا چاہیے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس تنازع کا کوئی پُرامن حل تلاش کرنے میں معاونت کے لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے روسی ہم منصب کو سربراہ ملاقات میں شرکت کی بھی دعوت دی ہے۔
وسطِ ایشیا، مشرقی یورپ اور بحیرۂ اسود کے خطے کی صورتِ حال کے حوالے سے ایران بھی اب تک خاصی نپی تُلی سفارت کاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ امریکا سے ایران کے تعلقات 1979 کے انقلاب کے بعد سے خراب رہے ہیں۔ دونوں میں باضابطہ سفارتی تعلقات اب تک بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ ایرانی قیادت بہت سے معاملات میں امریکا کے خلاف جاتی رہی ہے۔ ایسے میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے امریکا کو ایرانی قیادت کی طرف سے سفارتی و اخلاقی حمایت مل سکے گی۔ امریکا اور یورپ کے لیے ایران اب تک ناپسندیدہ ہے۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ یوکرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک کیا کریں گے۔ ایک بات البتہ طے ہے، یہ کہ روس کی اگر حمایت نہیں کی جائے گی تو مذمت بھی نہیں کی جائے گی۔ اِس کا سبب جاننا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ڈھائی تین عشروں کے دوران مسلم دنیا کا جو حشر کیا ہے اُس کے بعد یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ موقع ملنے پر بھی مسلم دنیا اُن کے خلاف جانا پسند نہیں کرے گی۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں امریکا اور یورپ نے جو تباہی مچائی ہے اُسے دیکھتے ہوئے مسلم دنیا اُن کی طرف کیوں جُھکی رہنا پسند کرے گی؟ شمالی افریقا میں چین اور روس نے قدم جمانے کی بھرپور اور کامیاب کوششیں کی ہیں۔ اس تبدیلی سے یورپ کو پریشانی لاحق ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے تناظر میں امریکا اور یورپ کو مسلم ممالک سے حمایت کی زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔