ماہِ شعبان المُعظّم

460

’شعبان‘ اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ یوں تو یہ پورا مہینہ ہی نفلی روزوں اور نفلی عبادات کے لیے متبرک اور فضیلت والاہے، اس لیے کہ خود سرورِکائناتؐ اس ماہ میں کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے جیسا کہ احادیث میں مروی ہے، اس کے علاوہ اس ماہ میں ایک مبارک ومحمود رات ہے جسے ’شبِ برات‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
ماہِ شعبان کی اہمیت
سیدنا اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسولؐ! میں نے آپ کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ ماہِ شعبان، رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے، جس سے لوگ غافل ہوتے ہیں، جب کہ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العالمین کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال (اللہ کے حضور پیش) ہوں تو میں روزے دار ہوں۔ (نسائی) سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کونسا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: شعبان کا، رمضان کی تعظیم کے لیے۔ (ترمذی) سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیںکہ میں نے نبی اقدسؐ کو (رمضان کے سوا) شعبان سے زیادہ کسی ماہ میںروزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ شعبان کے اکثر حصے میں آپؐ روزے رکھتے تھے، بلکہ (قریب قریب) تمام مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ (بخاری، مسلم) یہ ترقی کر کے عائشہؓ کا تمام ماہِ شعبان کے روزوں کا ذکر صاف بتلاتا ہے کہ اس سے مبالغہ مقصود ہے۔ (خصائل نبوی)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو اس میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے آسمان دنیا پر (اپنی شان کے موافق) نزول فرماتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت دوں؟ اسی طرح اور بھی ندائیں جاری رہتی ہیں، یہاں تک کہ صبح صادق ہو۔ (ابن ماجہ، شعب الایمان للبیہقی) اسی لیے علما نے پندرھویں شعبان کی رات کو جاگ کر عبادت کرنا اور دن میں روز ہ رکھنا مستحب قرار دیا ہے۔
چاند کی تلاش
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: رمضان کے لیے شعبان کے چاند کے دن گنتے رہو۔ (ترمذی) اسی لیے ماہِ شعبان کی 29 تاریخ کو غروبِ آفتاب کے وقت رمضان المبارک کا چاند دیکھنا یعنی دیکھنے کی کوشش کرنا اور مطلع پر تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ شعبان کی 29 تاریخ کو رمضان المبارک کا چاند نظر آجائے تو اگلے دن سے رمضان کا روزہ رکھا جاسکے، لیکن اگر اس دن چاند نظر نہ آئے جب کہ مطلع صاف ہو، تو صبح کو روزہ نہیں رکھا جائے گا۔ ہاںاگر مطلع پر ابر یا غبار تھا تو اگلے روز صبح کو دس گیارہ بجے تک کچھ کھانا پینا نہیں چاہیے اور اگر تب تک کہیں سے چاند نظر آنے کی خبر معتبر طریقے سے آجائے تو روزے کی نیت کرلی جائے، ورنہ کھا پی سکتے ہیں۔ لیکن 29 شعبان کو چاند نظر نہ آنے کی صورت میں اگلی صبح کے روزے کی اس طرح نیت کرنا کہ چاند ہوگیا تو رمضان کا روزہ ورنہ نفل، یہ طریقہ مکروہ ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری) رسول اللہؐ کا ارشادِ گرامی ہے: چاند دیکھ کر روزے رکھنے کا آغاز کرو اور چاند دیکھ روزے رکھنا موقوف کرو، پھر اگر مطلع ابر آلود ہو اور چاند نظر نہ آئے، تو شعبان کے تیس دن پورے کرو۔ (نسائی)