مکافات ِ عمل

751

آج ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے، دوسروں کی اہانت، تذلیل، تحقیر اور توہین کا سلسلہ حکمراں جماعت نے شروع کیا اور اس کے لیے ملک کے اندر اور باہر مورچے بناکر سوشل میڈیا کو بے دردی سے استعمال کیا اور اب بیک فائر ہورہا ہے، مکافات ِ عمل کا سلسلہ جاری ہے، جو فصل بوئی تھی، وہ بار آور ہوچکی ہے اور وہی حربے جو دوسروں کے خلاف استعمال کیے گئے تھے، اب ان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے: ’’اے بادِ صبا! ایں ہمہ آوردۂ تُست‘‘، یعنی آپ کو اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے۔ دشنام، الزام واتہام، استہزاء، طعن وتشنیع اور گالی گلوچ کے جو تیر دوسروں پر چلائے جارہے تھے اور دوسروں کو ذہنی کچوکے لگاکر لطف اندوز ہورہے تھے، اب مخالفین وہی حربہ اُن کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم اور اُن کے رفقاء کو ہدف بنایا گیا، تو اب اپنی آبرو کے تحفظ کے لیے سائبر کرائمز کے نام پر قوانین بنائے جارہے ہیں، پکڑ دھکڑ ہورہی ہے، لیکن اس کے اثرات بھی حکومت کے لیے منفی ثابت ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جارہا ہے کہ مخالفین کو زَچ کرنے کے لیے بیرونِ ملک مراکز بنائے گئے ہیں، لیکن جو حربہ آپ اپنے مخالفین کے خلاف اختیار کرسکتے ہیں، آج کے دور میں دوسرے بھی آپ کے خلاف وہی حربہ استعمال کرسکتے ہیں اور اب یہی ہورہا ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے رفقاء کو یقینا رنج پہنچا، انہیں ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا اور یہ فطری بات ہے، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اس کا علاج وہ نہیں جو اختیار کیا جارہا ہے۔
میثاقِ جمہوریت دو جماعتوں کے درمیان بنا، لیکن پھر اُسے نبھایا نہ جاسکا، میثاقِ معیشت کی پیشکش ہوئی، لیکن حکومت نے اُسے قبول نہ کیا، ہمارے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ پوری سیاسی قیادت ’’میثاقِ اخلاق‘‘ پر جمع ہو تاکہ سب کی عزتیں محفوظ رہیں اور سیاسی موافقت اور مخالفت سیاسی اصولوں پر کی جائے، ایک دوسرے کی پالیسیوں، منشور اور طرزِ حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جائے، ذاتیات اور خاندانوں کو بے آبرو نہ کیا جائے۔ رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری وصایا میں فرمایا تھا:
’’تمہاری جانیں، تمہارے مال، راوی محمد نے کہا: میرا گمان ہے کہ آپ نے (یہ بھی) فرمایا: اور تمہاری آبروئیں تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح آج کے دن (عرفہ)، اس شہرِ (مکہ) اور اس ماہِ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے، (بخاری)‘‘۔ ایک روایت میں ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدمؑ) ایک ہے، سنو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر (ذاتی طور پر) کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، سوائے (وجہِ فضیلت) تقویٰ کے، پھر آپؐ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے (اللہ کا پیغام بلا کم وکاست) تم تک پہنچادیا ہے، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ نے یقینا (اللہ کا پیغام ہم تک) پہنچا دیا ہے، پھر آپؐ نے فرمایا: آج کون سا دن ہے؟، انہوں نے عرض کیا: حرمت والا دن (عرفہ) ہے، پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے، صحابہ نے عرض کی: حرمت والا مہینہ (ذوالحجہ) ہے، پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے، صحابہ نے عرض کیا: حرمت والا شہر (مکۂ مکرمہ) ہے، آپؐ نے فرمایا: بے شک اللہ نے تمہارے درمیان (ایک دوسرے پر) تمہاری جانوں اور مالوں کو حرام قرار دیا ہے، (مسند احمد)‘‘۔
اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، بہت باخبر ہے، (الحجرات: 13)‘‘۔ الغرض یہ قومیں اور قبیلے تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں، نَخوت وغرور اور تفاخر کے لیے نہیں بنائے گئے۔ رسول اللہؐ نے ہمیں تعلیم فرمایا کہ جب مکافاتِ عمل کے نتیجے میں فریقِ مخالف کی طرف سے ردِّ عمل آئے، تو اس کا ذمے دار وہ ہے جس نے خود پہل کی ہے، حدیثِ پاک میں ہے:
رسول اللہؐ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا کوئی ایسا (بدبخت) شخص بھی ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے، آپؐ نے فرمایا: ہاں! وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ دوسرے شخص کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، (مسلم)‘‘۔ الغرض دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینے والا دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنتا ہے، دوسرے کے ماں باپ کی بے عزتی کرنے والا اپنے ماں باپ کی بے توقیری کا سبب بنتا ہے، اگر اس کے ہاتھوں دوسرے کے ماں باپ کی عزت وآبرو پامال نہ ہو تو اس کے ماں باپ کی آبرو بھی سلامت رہے۔ یہی منظر ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی عزتوں پر حملہ کیا، اب ان کی اپنی عزتیں محفوظ نہیں رہیں، اسی کو ’’مکافاتِ عمل‘‘ کہتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں نے ملک کی قومی وحدت اور معیشت کو تو برباد کرہی دیا ہے، لیکن اس سے بھی بڑا نقصان اخلاقیات کی تباہی اور بربادی ہے، نئی نسل کے لیے مخالفین کی عزتوں سے کھیلنا اپنی قیادت سے وفا کی علامت اور ایک فیشن بن گیا ہے، اس سے ان کے نفسِ اَمّارہ کو تسکین ملتی ہے اور قیادت کی جانب سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے، پھر اپنی جماعتیں (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے) بھیجتا ہے، پس جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرے، اس کا مرتبہ اُس (ابلیس) کے دربار میں سب سے بڑا ہوتا ہے، ایک شیطانی چیلا آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے یہ یہ کام کیا، وہ کہتا ہے: تم نے کچھ نہیں کیا، آپؐ نے فرمایا: پھر اس کا ایک چیلا آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے (فلاں شخص کا) پیچھا نہیں چھوڑا حتیٰ کہ اُس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علٰیحدگی کرادی، شیطان اسے اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: ہاں! تم نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، (مسلم)‘‘، یعنی خاندانوں میں تفریق اور عداوت کے بیج بونا شیطان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
’’سیدنا ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: ابلیس جب صبح کرتا ہے تو اپنے لشکروں کو (مختلف اطراف میں) بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے: آج جوکسی مسلمان کو گمراہ کرے گا، میں اُسے تاج پہنائوں گا، پھر اُن میں سے ایک آکر کہتا ہے: میںفلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا حتیٰ کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان ہوگیا، حالانکہ وہ اس سے حُسنِ سلوک کرنے والا تھا، پھر ایک دوسرا آتا ہے اور کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور ایک آکر کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے شرک کیا تو ابلیس کہتا ہے: تونے بڑا کارنامہ انجام دیا اور ایک آکر کہتا ہے: میں فلاں شخص کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے قتلِ ناحق کیا، شیطان کہتا ہے: تو نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور اسے تاج پہناتا ہے، (المستدرک للحاکم)‘‘۔
آج کل ہمارے انٹرٹینمنٹ ٹیلی ویژن چینلوں پر یہی کچھ ہورہا ہے، اکثر ڈراموں کی روح رشتوں کی بے حرمتی، گھریلو سازشیں اور میاں بیوی میں تفریق ہوتی ہے اور اب ہمارے سیاست دان بھی یہی کام کر رہے ہیں، ایک دوسرے کی بیویوں، بیٹیوں اور بہوئوں کو ہدف بنارہے ہیں، یہ اخلاقی پستی کی انتہا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: لوگوں کی عورتوں کی پاکدامنی کا احترام کرو تاکہ لوگ تمہاری عورتوں کی پاکدامنی کا احترام رکھیں، اپنے باپ دادا سے اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری آنے والی اولاد تم سے اچھا سلوک کرے، جس کے پاس اس کا بھائی عذر خواہی کے لیے آئے تو وہ اُسے قبول کرلے (اور اس کے قصور کو معاف کردے)، خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر، پس اگر وہ اس کے عذر کو قبول نہیں کرے گا تو اُسے میرے حوضِ کوثر پر آنا نصیب نہیں ہوگا، (المستدرک للحاکم)‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’لوگوں کے کرتوتوں کے سبب خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا تاکہ اللہ انہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا مزا چکھائے، شاید وہ باز آجائیں، (الروم: 41)‘‘، ’’آپ کہیے: وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں گروہوں میں بانٹ ایک دوسرے سے (لڑائی) کا مزہ چکھائے، دیکھیے! ہم کس طرح بار بار دلیلوں کو بیان کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں، (الانعام: 65)‘‘۔ مفسرین نے لکھا ہے: اوپر سے عذاب مسلّط ہونے کے معنی ہیں: ’’ظالم حاکم کا مسلّط ہوجانا‘‘ اور نیچے عذاب بھیجنے کے معنی ہیں: ’’ریاست کے ماتحتوں کا نافرمان ہوجانا اور قوم کا گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے الجھنا‘‘۔ الغرض دلوں کو توڑنا آسان ہے، جوڑنا مشکل ہے، مولانا رومی نے کہا:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
مفہوم: ’’(اے مردِ مومن!) تو لوگوں کے ملاپ کے لیے آیا ہے، فراق کے لیے نہیں آیا‘‘۔
کمال ہاتوی نے کہا ہے:
ہوا سے کہہ دو کہ یوں خود کو آزما کے دکھائے
بہت چَراغ بجھاتی ہے، اِک جلا کے دکھائے