کیا ہم مجرم ہیں۔۔۔

438

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ ہندوستان اقلیت کے لیے جہنم بن چکا ہے بلکہ ہندوتوا کی اس تحریک نے خود نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے بھی اس ملک کو جہنم بنا دیا ہے۔ مودی حکومت کے اقدامات نے ہندوستان کے چہرے سے سیکولر ازم کے نقاب کو نوچ کر اس کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے واضح کردیا ہے۔ وہ چاہیے گھوڑوں پر سوار نچلی ذات کے ہندو دولہاؤں کی لاشیں ہوں یا گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی جلی ہوئی لاشیں، سکھوں کے گولڈن ٹیمل پر فوج کشی ہو یا مسیحیوں پر کیا جانے والا ظلم یا چناروں کے دیس کشمیر کی انسانی جیل ہو اور جس میں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم، حقیقت یہ ہے کہ سیکولر آئین رکھنے والا ہندوستان اپنے ہی آئین پر ہر روز تھوکتا ہے اور اس کو پامال کرتا ہے۔
تقسیم ہند کے اوّل دن سے ہندوستان اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک باور کرانے میں بری طرح ناکا م رہا ہے۔ اس تحریک نے ہندوستان کو ایک مکمل ہندو ریاست بنانے کی جدوجہد شروع کررکھی ہے جس میں غیر ہندو کی کوئی گنجایش نہیں ہے اس پوری تحریک کا قائد مودی ہے۔ ایک طرف تو یہ صورت حال ہے لیکن دوسری طرف پاکستان جس بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی تھی اگر قیام پاکستان کی جدوجہد میں اسلام کا نام نہ ہوتا تو ایک قائد اعظم کیا ایک سو قائد اعظم بھی برصغیر کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کے لیے جدوجہد پر آمادہ نہیں کرسکتے تھے۔ یہ اسلام ہی تھا جس کے لیے مسلمانانِ ہند نے پاکستان کے قیام کے لیے وہ قربانیاں دیں کہ جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے مسلمانوں کی اس تحریک میں اسلام جسم میں روح کی طرح تھا جس نے قربانیوں کی وہ مثال پیش کی کہ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر میں بن رہا تھا مگر یہ جانتے ہوئے بھی یوپی اور سی پی بلکہ برصغیر کے ہر علاقے کے مسلمان اپنا سب کچھ قربان کررہے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ جن علاقوں میں رہ رہے ہیں اور پاکستان کی جدوجہد کررہے ہیں وہ علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہورہے ہیں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد ان کا یہاں زندگی گزارنا ہندو اجیرن بناکر رکھ دیں گے مگر وہ یہ سب ایک عبادت سمجھ کررہے تھے وہ اسلام کے لیے ایک ریاست کا حصول اپنے عقیدے کا حصّہ سمجھ رہے تھے۔ لاکھوں شہداء نے اپنے خون اور وہ لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتوں کی شہادتیں اس پاکستان کے گلشن کو سیچنے کے لیے دے رہے تھے۔ یہ وہی اسلام کے شیدائیوں کی اولادیں ہیں ہے کہ جن کی اولادیں کبھی مسکان خان کے روپ میں اپنے حجاب کو اپنے عقیدے کو بچانے کے لیے ہندوتو ا کی فسطائیت کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرتی ہے کبھی کشمیر کی وادیوں میں ہندوستانی فوج کے سامنے سید علی گیلانی اپنی پیرانہ سالی میں بھی مزاحمت کا علم بلند کرتا ہے۔ یہ وہی سپوت ہیں جن کے آباواجداد نے پاکستان کے قیام کے لیے قربانیاں دی تھیں انہی کا ہم پر احسان ہے کہ پاکستان کی صورت میں آج ایک آزاد اسلامی ملک ہے جس میں ہم آزاد ی سے زندگی گزار رہے ہیں مگر افسوس آج ہم پر کالے انگریز مسلط ہیں جن کی وجہ سے آج پوری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
آزادی کے بعد سے لیکر آج تک وہاں کے کروڑوں مسلمان ظلم کی چکّی میں پس رہے ہیں ہم نے ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا ہے آج عدالتیں وہاں حجاب پر پابندی لگا رہی ہیں مگر اس پر ہماری حکومت نے ایک رسمی اور پھسپھسا سا احتجاج ان کے سفارت خانے کے ملازم کو طلب کرکے ریکارڈ کرادیا ہے۔ حجاب پر پابندی کا نوٹیفیکیشن اب کرناٹک کے علاوہ بھی دیگر بھارت کے بہت سارے شہروں کے اعلیٰ تعلیم اداروں میں آ چکا ہے۔ بی جے پی کی انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے اب تو ہندوتوا کے غنڈوں نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر بھی پابندی کے لیے تھانوں میں درخواست جمع کرادی ہیں بلکہ انہوں نے مساجد کے بالمقابل عمارتوں پر لاؤڈ اسپیکر نصب کردیے ہیں اور یہ دھمکی دی ہے کہ جب اذان ہوگی تو ہم لاؤڈ اسپیکروں سے گانے بجائیں گے، کئی جگہوں پر نماز جمعہ کے اجتماعات کو بزور روکا بھی ہے لیکن ہوا کا رخ یہ بتارہا ہے کہ ہندوستان اب خالص ہندو ریاست بننے جارہا ہے جس میں غیر ہندو کی کوئی گنجایش نہ ہوگی۔ اس تناظر میں اگر پاکستان کی مختلف حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کو ستّر سال سے زیادہ بیت چکے ہیں مگر یہاں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں ایک دن کے لیے یہاں اسلام نافذ ہوا ہو، لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد پاس کی لیکن اس کے بعد ریاست کو متواتر سیکولر ازم کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے ہر آنے والے دن پاکستان اپنے مقصد وجود اور منزل یعنی اسلام سے دور ہوتا چلا رہا ہے۔ یہاں روز بروز سیکولرازم پھل پھول رہا ہے ہر ایک نقش کو ریاست کی درو دیوار سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جو لوگ اسلام کے نظام کے لیے اس ریاست میں جدوجہد کررہے ہیں وہ تعداد میں تو نہایت مختصر ہیں مگر وزن میں اوروں سے زیادہ ہیں کیوں کہ ان کا مقصد عظیم ہے لیکن جو لوگ اس ملک میں انفرادی طور پر اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کررہے ہیں ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ کام ایک بھرپور اجتماعیت کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک جمے جمائے نظام کی جگہ دوسرا نظام قائم کرنا ماضی میں بھی اجتماعی جدوجہد سے ہوا ہے اور اب بھی اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال ہندوستان میں دیکھی جاسکتی ہے تمام ہندو، ہندوتوا کا حصّہ بن کر اجتماعی طور پر جدوجہد کررہے ہیں کہ ہندوستان کو صرف ہندو ریاست بنائیں اب انہوں نے اس کام کے لیے حکومت کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں یہ کام پاکستان میں بھی ہوسکتاہے اس کے لیے حکومت کی باگیں اللہ کے ان بندوں کے سپرد کرنا ہوں گی جو صالح ہوں۔ اسلام کے مکمل تصّور کو عام کرنا ہوگا بدقسمتی سے پاکستان میں اکثریت نے اسلام کو مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے مزاج کے منافی ہے تعجب ہے ہمارا دشمن اس بات سے ہم سے زیادہ اچھی طرح واقف ہے اور ہمارے لیے اسلام کو مختلف خانوں میں بانٹنے کا کھیل کھیلتا ہے اور ہم اس کھیل کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ جب تک ہم ان خانوں میں مقید اسلام کو باہر نہیں لائیں گے ہماری دنیا اور آخرت میں بہتری کی کوئی صورت نہیں ہے اس لیے کہ ایک بہت بڑا عہد تھا جو ہمارے آباو اجداد نے قیام پاکستان کے لیے خدائے ذوالجلال سے کیا تھا اب وہ عہد ہم پر منتقل ہوچکا ہے اس عہد کو وفا کرنے کی ذمّے داری ہم سب مسلمان پاکستانیوں کی ہے بصورت دیگر اللہ ہم سب کو عہد شکنی کی سزا سے بچائے۔