اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) چین نے سنگاپور ماڈل سے رہنمائی لیکر 70 کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا‘ جاگیر دارانہ نظام ختم کرکے اراضی کسانوں میں تقسیم کی گئی‘ ثقافتی انقلاب برپا اور ناانصافی کا خاتمہ کیا گیا‘ کمیونسٹ پارٹی کے رہنمائوں نے اپنے ذاتی مفادات کے بجائے قوم کے لیے کام کیا‘ کرپشن ختم اور مالیاتی نظام کو بہتر بنایا گیا‘ جنگوں میں الجھنے کے بجائے معیشت پر توجہ دی گئی۔ ان خیالات کا اظہار سفارتی امور کے تجزیہ کار مظہر طفیل، تحریک انصاف کے ترجمان انجینئر افتخار چودھری،سینیٹر مشاہد حسین، سابق سفارت کار ڈاکٹر عبدالباسط، مسلم کانفرنس کے امور نوجوان کے سربراہ سردار محمد عثمان خان، تجزیہ کار عباس رضا، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق نائب صدر سجاد سرور، پیپلز پارٹی کے رکن
قومی اسمبلی نوابزادہ افتخار احمد خان، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے گروپ لیڈر کامران عباسی اور تجزیہ کار جاوید الرحمن ترابی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’چین نے صرف 40 سال میں 70 کروڑ عوام کو غربت سے کیسے باہر نکالا؟۔ افتخار چودھری نے کہا کہ میری رائے میں چین نے جمہوریت سے اجتناب کر کے کمیونیز سسٹم کو اپنا کر لوگوں کے حالات بدلے‘ مادر پدر آزاد جمہوریت نے بھوک اور افلاس کو جنم دیا ہے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ چین کی ترقی کو سمجھنے کے لیے اس کے فیصلوں کی صلاحیت سمجھنی ہوگی‘ اس کی قیادت کا وژن بہت گہرا ہے‘ چین کی ترقی کا راز ہی یہی ہے اس نے جو فیصلہ کیا پھر اس کے بہتر نتائج کے لیے ٹھان لی اور محنت سے وہ تمام مطلوب نتائج حاصل کیے جس نے اس کی معیشت کو آج دنیا کی بہترین معیشت بنا دیا ہے۔ مظہر طفیل نے کہا کہ چین کے سابق صدر، عظیم لیڈر ماوزے تنگ کی قیادت میں جب کامیاب انقلاب کی بنیاد پڑی تو چین میں بڑی بڑی جاگیر داریاں ختم کر کے اراضی بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی گئی‘ عوام کو ہر سطح پر ترجیحی طور پر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ‘ ماوزے تنگ نے ثقافتی انقلاب برپا کر کے استحصال اور ناانصافی پر مبنی رسم و رواج ختم کیے اس موقع پر چین کے لیڈر ڈینگ زیائو پنگ نے سنگاپور کی ترقی سے متاثر ہو کر لیکوان سے ملاقات کی اور سنگاپور کی شاندار ترقی کا راز پوچھا ‘گریٹ لیکوان نے کہا، آئین اور قانون کی حکمرانی، میرٹ اورکڑی سزائیں سنگاپور کی ترقی کا راز ہیں‘ لیکوان نے چین کے لیڈر کو مشورہ دیا کہ چین کے دروازے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیں‘ زیائو پنگ نے سنگاپور کے ریاستی اور معاشی ماڈل کے مطابق چین کے نظام میں بڑی تبدیلیاں کیں‘ موجودہ عالمی حالات میں جب دنیا کے اکثریتی ممالک کو غربت کے چیلنج کا سامنا ہے، ان حالات میں چین کے لیڈروں نے معجزہ کرکے دکھایا۔ چین نے گزشتہ40 سال کے دوران 70 کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا جو عالمی برادری کے لیے ایک خواب ہے جبکہ گزشتہ8 سال کے دوران ہر سال ایک کروڑ افراد کو غربت سے باہر نکالا گیا ہے‘ چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ سے جب ایک موقع پر پوچھا گیا کہ آپ نے یہ معجزہ کیسے کر دکھایا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں40 سال تک کائونٹی میونسپلٹی کی صوبائی اور مرکزی حیثیت میں کام کرتا رہا‘ اس دوران میرا یہ زندگی کا خواب اور مشن رہا کہ میں چین کے عوام کی غربت کو دور کر سکوں‘ میں نے اپنے اس مشن کو اپنی پالیسیوں کا مرکز اور محور بنا دیا‘ چین میں غربت کے خاتمے کا سہرا کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے عظیم مضبوط اور پُرعزم لیڈروں کو جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی گروہی اور خاندانی مفاد کے بجائے غریب عوام کے مفاد کے بارے میں سوچا‘ عوام کی فلاح اور خوشی ریاستی نظام کا مرکزی نقطہ رہا، اسی بنیادی اصول کے مطابق ریاستی نظام کی پالیسیاں تشکیل دی گئیں جس کا ثمر آج پوری دنیا کے سامنے ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ چین ایک صنعتی ایمپائر بن چکا ہے‘اس نے 3 براعظموں میں تجارتی روابط استوار کرنے کے لیے ’’ون بیلٹ‘ون روڈ‘‘ کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ محمد عثمان خان نے کہا کہ ہمارے قائد محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اتحاد، تنظیم اور یقین پیدا کرکے قوم ترقی کر سکتی ہے مگر ہم ان کے اقوال بھول گئے اور جن قوموں نے یہ اقوال اپنائے وہ کامیاب نظر آتے ہیں چین نے بھی اسی اصول پر عمل کیا۔ عباس رضا نے کہا کہ چین خود انحصاری کی جانب راغب ہوا اور اپنے عوام کے لیے تعلیم کو لازم قرار دیا‘دور دراز علاقوں میں مقیم لوگوں کو انہی کے شہر میں روزگار دیا‘ شہروں اور دیہات کے مابین سڑکوں کا جال بچھایا ‘ انٹرنیٹ کے ذریعے عالمی مارکیٹ سے جوڑا گیا‘ انتظامیہ کو مضبوط کر کے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا‘ اپنے اہداف کے حصول کے لیے مسلسل مستقل مزاجی سے کام کیا۔سجاد سرور نے کہا کہ چین نے اپنے وسائل پر بھروسہ کیا اور ترقی کی۔ افتخار احمد خان نے کہا کہ چین نیعالمی تنازعات میں اپنا وقت ضائع نہیںکیا اس نے صرف اپنی معیشت پر توجہ رکھی ہے اس لیے وہ کامیاب ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ چین میں نظم و ضبط بہت اہم ہے‘ کرپشن برداشت نہیں کی جاتی‘ بہترین مالیاتی نظام نے چین کو ایک خوشحال ملک بنا دیا ہے۔ عمران شبیر عباسی نے کہاکہ چین کی قیادت نے معاشی صورت حال کو سنجیدہ مسئلہ سمجھا اور اس کے حل کی جانب پیش قدمی ہے۔ کامران عباسی نے کہا کہ چین نے اپنی معیشت کو پہلی ترجیح بنا کر کام کیا ہے۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اس وقت صنعتی شعبے میں دنیا کو لیڈ کر رہا ہے اور پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں چین کا تعاون حاصل ہے، تاہم ہمیں اپنے گھر کی خبر بھی لینی چا ہئے ‘ کوئی ملک صرف دوسرے ملکوں کے سہارے ترقی نہیں کر سکتا۔