اخلاقی شخصیت کی تشکیل

858

اعلیٰ اخلاقی اَقدار اور پاکیزہ خصلتیں اُس معاشرے میں پروان چڑھتی ہیں جہاں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور ایسے لوگوں کو عزت واحترام عطا کیا جاتا ہو، لیکن جب سے ہم ہر قید وبند سے آزاد الیکٹرونک میڈیا کے دور میں داخل ہوئے ہیں، اَقدار ومعیارات بدل گئے ہیں اور کاروباری وتشہیری صنعت نے ترجیحات بدل دی ہیں اور ہر چیز کو لذتِ نظر، لذتِ سماع، ذہنی آوارگی اور شہوت رانی کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکیزہ فطرت انسانوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اُس کے دین کی برکت کی بدولت ہی ممکن ہے۔
رسول اللہؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اُس میں اگر کسی شخص سے بشری کمزوری کے تحت کوئی گناہ یا خطا سرزد ہوجاتی، تو جب تک اُس کا شرعی اصولوں کی روشنی میں ازالہ نہ ہوجاتا، اُس کے نفس کی تطہیر اور تزکیہ نہ ہوجاتا، اسے قرار نہیں آتا تھا۔ اسی لیے رسالت مآبؐ کے عہدِ مبارک میں ہمیں مجرمین کے اِقرار واعتراف کی حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں۔
سیدنا حنظلہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم رسول اللہؐ کی مجلس میں موجود تھے، آپؐ نے ہمارے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ہمیں ایسا لگا جیسے جنت وجہنم ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، میں وہاں سے اٹھ کر اپنی بیوی بچوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ دل لگی میں مشغول ہوگیا، وہ بیان کرتے ہیں: (اچانک) مجھے اُس کیفیت کا خیال آیا جو رسول اللہؐ کی مجلس میں مجھ پر طاری تھی۔ میں (فوراً) نکلا اور سیدنا ابوبکر سے ملا اور اُن سے تکرار کے ساتھ کہا: میں تو منافق ہوگیا، سیدنا ابوبکرؓ نے میرے اس اضطراب کو جان کر کہا: اس کیفیت میں تو ہم بھی مبتلا ہوجاتے ہیں، تو حنظلہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی، آپؐ نے فرمایا: اے حنظلہ! حضوریِ قلب کی وہ کیفیت جو تمہیں میری مجلس میں نصیب ہوتی ہے، اگر مسلسل رہے، تو تمہارے بستروں پر اور تمہاری راہوں میں آکر فرشتے تم سے مصافحہ کریں، اے حنظلہ! ایسی پُرنور کیفیات ہر وقت نہیں رہتیں، (ابن ماجہ)‘‘۔ الغرض رسول اللہؐ کی باتیں اُن کے دل ودماغ میں جذب ہوجاتیں، ان پر انہیں پختہ یقین ہوجاتا اور اُن کے دل ودماغ کی اسکرین پر یہ سارے مناظر بصری منظر کی طرح گھوم جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اگراُن کے دل ودماغ کی پاکیزہ اسکرین پر گناہ یاخطا کا کوئی دھبا پڑ جاتا، تو جب تک اس کا ازالہ نہ ہوتا، انہیں چین نہ آتا، پس اُن کے اعترافات کا سبب یہی تھا۔ ذیل میں ہم احادیث ِ مبارکہ سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! میں نے شہر کے پرلے کنارے ایک اجنبی عورت کو پکڑلیا اور میں نے مباشرت تو نہیں کی، لیکن بوس وکنار کیا۔ سو میں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں، میرے بارے میں آپ جیسے چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ سیدنا عمرؓ نے اُن سے کہا: اللہ نے تمہارے عیب پر پردہ ڈالا تھا، کاش کہ تم نے خود بھی اپنی پردہ پوشی کی ہوتی۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا، سو وہ شخص اٹھ کر چلا گیا۔ پھر نبیؐ نے ایک شخص کے ذریعے اُسے بلا بھیجا اور یہ آیت پڑھ کر اُسے سنائی: (ترجمہ:) ’’دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرتے رہا کرو، بے شک نیکیاں برائیوں کے اثر کو زائل کردیتی ہیں، یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے (ہود: 114)‘‘، حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! کیا یہ رعایت اِس کے لیے خاص ہے؟، آپؐ نے فرمایا: میری امت کے اُن سب لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عمل کریں، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اُس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور نماز اور نیکیوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی بھی درجے کی خطا ہو، صحابہ کرام اس کا ازالہ ہونے تک قلبی طور پر بے چین رہتے تھے۔
سیدنا ثعلبہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: عمرو بن سَمُرَہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے بنی فلاں کا اونٹ چوری کیا ہے، سو مجھے (اس گناہ کی آلودگی سے) پاک کردیجیے۔ رسول اللہؐ نے اُن لوگوں کو بُلایا، انہوں نے عرض کی: بے شک ہمارا اونٹ گم ہوگیا ہے، سو (اقرارِ جرم کی بنا پر) رسول اللہ ؐ نے حَدِّسَرِقہ جاری کرنے کا حکم فرمایا اور اُس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، سیدنا ثعلبہ بیان کرتے ہیں: میں دیکھ رہا تھا کہ جب اُس کا ہاتھ کاٹا گیا تو اُس نے (اپنے ہاتھ کو مخاطَب کر کے) یہ کلمات کہے: ’’اُس اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے تجھ سے پاک کردیا، تو نے تو چاہا تھا کہ میرے پورے جسم کو جہنم میں داخل کردے، (ابن ماجہ)‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ فطرت صحابۂ کرام سے اگر بشری کمزوری کے تحت کوئی جرم یا خطا سرزد ہوجاتی، تو آخرت کے عذاب کے خوف سے وہ خود آکر رسول اللہؐ کی بارگاہ میں اقرارِ جرم کرتے، کیونکہ اُن کا نظریہ یہ تھا: ’’اس دنیا کی سزا خواہ کتنی ہی سنگین ہو، آخرت کی سزا کے مقابلے میں کم تر ہے‘‘۔ لہٰذا وہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے خود اپنے آپ کو پیش کرتے اور ظاہر ہے کہ جو شخص خود اپنے آپ کو رسول اللہؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ کی حد نافذ کرنے کے لیے پیش کر رہا ہے، تو اُس کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے جرم پر نادم ہے اور وہ دل سے اللہ کی بارگاہ میں تائب ہوچکا ہے۔
اس کے برعکس ہم جس معاشرے اور ماحول میں رہ رہے ہیں، اس میں جرم سے کسی بھی حیلہ وتدبیر یا فریب سے بچ نکلنا کمال سمجھا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آخرت کی جواب دہی اور جزا وسزا کا خوف ہمارے دلوں سے نکل چکا ہے۔ جرم کا سرزد ہونا تو بہت بڑی بات ہے، صحابۂ کرام کے ذہن میں اگر برا خیال آجاتا تو وہ اُس سے بھی بے چین ہوجاتے اور انہیں خدشہ لاحق ہوتا کہ کہیں ان برے خیالات پر ہماری گرفت نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے دل میں ایسے ایسے برے خیالات آتے ہیں کہ میں آپ کے سامنے انہیں زبان پر لانے کے بجائے جَل کر کوئلہ ہونا پسند کروں گا، تو رسول اللہؐ نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہا اور فرمایا: اُس اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اس کے خیال کو (عملی صورت میں ڈھلنے کے بجائے) وسوسے میں بدل دیا، (ابودائود)‘‘۔ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارے دلوں میں اتنے برے خیالات آتے ہیں کہ (اُن پر عمل کرنا تو درکنار) ہم ایسے خیالات کو زبان پر لانا بھی بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا واقعی تم اپنے دل میں ایسی کیفیت محسوس کرتے ہو؟، انہوں نے عرض کی: جی ہاں یارسول اللہ!، آپؐ نے فرمایا: یہ خالص ایمان کی دلیل ہے، (مسلم)‘‘۔ حدیث پاک کا منشا یہ ہے کہ برے عمل کا ارتکاب تو دور کی بات ہے، برے خیالات پر بھی ضمیر کا بے چین ہوجانا خالص ایمان کی دلیل ہے۔ احادیث ِ مبارکہ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ رسول اللہؐ کے بار بار موقع دینے کے باوجود ایک شخص اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرتا ہے:
سیدنا بریدہ بیان کرتے ہیں: ’’ماعز بن مالک رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے پاک کیجیے، رسول اللہؐ نے فرمایا: تجھ پر افسوس، اللہ سے توبہ استغفار کرو، وہ تھوڑی دورگئے اور پھر واپس آکر عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے پاک کردیجیے، رسول اللہؐ نے اُن کو پھر وہی جواب دیا۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ آئے، تو آپؐ نے پوچھا: میں تجھے کس چیز سے پاک کروں؟، اُنہوں نے عرض کیا: زنا کے جرم سے، آپؐ نے صحابہ سے پوچھا: کیا اس کا دماغی توازن درست ہے؟، آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ پوری طرح ہوش وحواس میں ہے،آپؐ نے پوچھا: اس نے شراب تو نہیں پی؟، ایک شخص نے اٹھ کر اسے سونگھا اور بتایا کہ اس نے شراب نہیں پی، آپؐ نے فرمایا: تم شادی شدہ ہو؟، اس نے عرض کیا: جی ہاں!، آپؐ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ اس پر لوگوں کی رائے اُن کے بارے میں مختلف ہوگئی۔
ایک گروہ نے کہا کہ ماعز کے بدترین فعل نے اُسے ہلاک کردیا اور اس کے گناہ نے اس کو گھیر لیا۔ دوسرے گروہ نے کہا: کیا ماعز کی توبہ سے بھی بڑی توبہ کسی کی ہوسکتی ہے کہ وہ خود آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اپنے آپ کو سنگسار کرنے کے لیے پیش کردیا۔ دو تین دن کے بعد نبیؐ صحابہ کی مجلس میں آئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے اللہ سے استغفار کرو، پس تمام صحابہ نے اُن کے لیے استغفار کیا۔ پھر رسول اللہؐ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کردی جائے تو اُن سب کے لیے کافی ہوجائے، (دار قطنی)‘‘۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ مذہب، خوف ِ خدا اور فکرِ آخرت ہے۔ لیکن آج کل مذہب کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ کسی سے کوئی جرم سرزد ہوجائے تو ہمارا میڈیا اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح اس کا رشتہ مذہب سے جوڑ دیا جائے اور اس کا سبب مذہب اور اہلِ مذہب کو قرار دے کر ایک مہم شروع کردی جائے۔ لِلہ! اِ س شعار کو ترک کیجیے! اور اگر کسی مذہبی شخص سے کوئی بے تدبیری یا بے احتیاطی ہوئی ہے یا اُس نے مذہب کی غلط تعبیر کی ہے، تو اُسے اُس فرد کا قصور سمجھا جائے نہ کہ مذہب اور اہلِ مذہب کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کردی جائے، سوچیے اور غور کیجیے!۔
الغرض انسان میں اللہ تعالیٰ نے ملکوتی، حیوانی، غضبانی اور شہوانی ملکات پیدا فرمائے ہیں، ان میں توازن پیدا کرنے سے اور انہیں شریعت کے تابع کرنے اور نبوی تعلیمات کی بھٹی میں ڈھل جانے سے ایک اخلاقی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے، جس پر انسانیت ناز کرتی ہے اور فرشتے رشک کرتے ہیں۔