دور حاضر کے بچے مستقبل کے لیڈر

749

آج کے بچے مستقبل کے لیڈر، لیکن اس کے لیے بچوں کی اچھی تربیت والدین کا فرض ہے لیکن ہم بعض اوقات اس سے آگے بڑھ کر جب ہم آج سائنس دان، سیاست دان، مفکر، اداکار، ادیب، دانشور کو دیکھتے ہیں تو رشک کرتے ہیں اور خواہش و دعا کرتے ہیں کاش ہماری اولاد اس مقام پہ کھڑی ہو۔ اور ہمارا نام روشن ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوش حال اور خوشگوار زندگی بھی گزارے۔ اور جو ہم نہیں کر سکے وہ، وہ بھی کرے۔ جو ہم نہیں پا سکے اُسے وہ سب مل جائے۔ وہ ایک اچھی سماجی اور ازدواجی زندگی بھی گزارے۔ وہ جلد بڑے ہو جائیں یہ خواہش تو اچھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بچے میں مختلف صلاحیتیں رکھی ہیں اس دوڑ میں وہ بچے اور پیچھے چلے جاتے ہیں جن کو ہم ان کی صلاحیتوں کے برعکس بڑا انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور صرف صلاحیت کا معیار تعلیم اداروں کے نتائج کو بنا لیتے ہیں۔
1968 میں امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے شعبہ سائیکو میٹرکس سے منسلک پروفیسر جولین اسٹینلے ایک بارہ سالہ ذہین بچے سے ملے جو وہاں کمپیوٹر سائنس پڑھ رہا تھا جوزگ بیٹس نامی وہ بچہ نہایت ذہین تھا لیکن ساتھ میں وہ کافی بور بھی تھا۔ وہ اپنی عمر کے دیگر بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے تھا۔ اس بچے سے متاثر ہو کر جولین اسٹینلے نے ایک طویل مدتی تحقیق شروع کی جو 45 برسوں پر محیط تھی اور اس کے تحت ذہین بچوں کی پرورش پر تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور معروف گلوکارہ لیڈی گاگا بھی شامل تھیں۔ جولین اسٹینلے نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ایک پروگرام شروع کیا جس کا نام تھا ’اسٹڈی آف متیھیمیٹکلی پری کوشیئس یوتھ‘ (ایس ایم پی وائی) یعنی ان بچوں پر تحقیق جو ریاضی میں بہت قابل ہوں۔ اس تحقیق میں اْن پانچ ہزار ذہین و فطین بچوں پر تحقیق کی گئی جو ذہانت کے پیمانے میں ذہین ترین ایک فی صد بچوں میں شامل تھے۔ اس تحقیق کی مدد سے جولین اسٹینلے کو چند حیران کن حقائق ملے۔ روایتی طور پر کہا جاتا ہے کہ ’پریکٹس میکس پرفیکٹ‘ یعنی مسلسل ثابت قدمی سے کوئی کام کرنے میں پختہ مہارت حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ کہ آپ کسی بھی چیز میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس کے لیے سخت محنت کریں اور بھرپور توجہ دیں۔ اس تحقیق ایس ایم پی وائی کے مطابق بچپن میں مسائل حل کرنے اور درست فیصلے لینے کی صلاحیت اور آگاہی، مستقبل میں کامیابی کے لیے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مسلسل محنت کرنے کے یا اْس فرد کے مالی اور سماجی حالات اس کامیابی میں اتنے اہم نہیں ہوتے۔ اس کے لیے اہم بات یہ ہے کہ بچوں پر پڑھائی میں اچھی کارکردگی کے لیے اتنا زور نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس کے دباؤ کی وجہ سے وہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے ذہین بچے کے مستقبل کو مزید سنواریں اور ان کی ذہانت کو بڑھائیں تو اس کے لیے کچھ مفید مشورے درج ذیل ہیں۔
اپنے بچے کو مختلف نوعیت کے تجربات سے گزرنے کے مواقع فراہم کریں ذہین بچوں کو اکثر اوقات ترغیب دینے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ زندگی کے مختلف تجربات سے گزرنے کے مواقع فراہم کرنے سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ اصل دنیا میں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اسی طرز زندگی کو اپنائیں جس کی انہیں واقفیت ہوتی ہے اور وہ بالکل نہیں چاہتے کہ نت نئے تجربات سے گزریں۔ بچوں کے شوق اور صلاحیتوں کو اجاگر کریں چاہے وہ کوئی کھیل ہو یا فنون لطیفہ میں سے کوئی عمل، بچپن ہی سے کسی مشغلے میں دلچسپی رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی مستقبل میں ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان پر کوئی چیز زبردستی نہیں تھوپنی چاہیے۔ اپنے بچے کی ذہنی اور نفسیاتی ضروریات کو سمجھیں۔ کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے تجسس کا ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے۔ بچے اسکول شروع ہونے سے پہلے بہت سے سوالات کرتے ہیں اور کئی بار یہ ممکن ہے کہ ان کو جواب دیتے دیتے آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے لیکن یہ اْن کی نشو نما کے لیے ضروری ہے۔
امی جواب دیجیے میرے سوال کا
آتا نہیں سمجھ میں کہ یہ کیا ہے ماجرا
کسی بھی چیز کے حصول کے لیے ان کی جانب سے کی گئی کوشش کی داد دینی چاہیے بجائے اصل نتیجے کے۔ بچوں کے سیکھنے کے عمل میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے رد عمل سے سیکھتے ہیں۔ ناکامی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ غلطیاں اور ناکامیاں مستقبل میں کامیابی کی کنجی ہیں اور سیکھنے کے لیے ضروری۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ غلطیوں کو موقع سمجھنا چاہیے تاکہ بچے ان سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائیں۔ ذہین بچوں کو اکثر زیادہ مشکلات سے بھرپور سوالات چاہیے ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذہنی نشو نما میں اضافہ ہو اور اس کے لیے ان کو زیادہ مدد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ان کا پسندیدہ مضمون کیا ہے؟ پسندیدہ کھیل کون سا ہے؟ فارغ وقت میں بچہ کیا کرتا ہے؟ اس کے لیے یہ اہم ہے کہ اساتذہ کے ساتھ اس بارے میں مشورہ کیا جائے۔ بچوں کی صلاحیتوں کو جانچنا ضروری ہے جس کی مدد سے یہ بات ابھر کر سامنے آسکتی ہے کہ آیا انہیں کسی قسم کی کوئی ذہنی یا کوئی اور بیماری تو نہیں ہے یا وہ نفسیاتی یا سماجی مسائل کا سامنا تو نہیں کر رہے۔
ذہین بچے ذرا سست ہوتے ہیں۔ تو اس کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ ذہین بچے حساس ہوتے ہیں اس کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ جس ذہانت اور مقام پہ ہم اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سب کی سب وہ منزلیں ہیں۔ جہا ں اندر سے تنہا اور خالی بچے سفر کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں تیار رہنا ہو گا۔ کیونکہ کامیابی قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ اپنے بچے کو سیاستدان، ماہر معاشیات، کاروبار کا مالک، پی ایچ ڈی (ڈاکٹر)، استاد، انجینئر، ڈاکٹر بنائیں لیکن وہ لیڈر اور بڑا آدمی تب بنے گا جب وہ انسانوں کی خدمت کرے گا اسے سکھائیں کہ انسانوں کی خدمت کیسے کرنی ہے، اسے بتائیں کہ محنت کرنا ضروری ہے لیکن کامیابی اللہ تعالیٰ ہی دیں گے تاکہ اس کا توحید پر اعتقاد پختہ ہو، پیارے نبیؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت بتائیں تاکہ بڑے ہو کر عاشق رسول بنیں اور آخرت کے بارے میں بتائیں کہ اس دنیا کے بعد ہم کو آخرت میں جانا ہے جو مستقل رہنے والی جگہ ہے جہاں اچھے اعمال کے بدلے جنت ملے گی۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے جوانوں اور بچوں کے بارے میں فرمایا اور دعا دی
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے