دنیا کا چوتھا بڑا ملک

495

 

بدھ 2فروری 2022، ملک کے بڑے صنعت کاروں اور تاجروں سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے اپنے تیز ترقیاتی کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم بات قوم کو بتائی جس پر قوم انگشت بدنداں ہوئی انہوں نے بہت ساری باتیں بتانے کے بعد فریا کہ پاکستان اب دنیا میں چوتھا بڑا ملک ہے جو موٹر سائیکلیں بناتا ہے۔ قارئین کو یقینا بہت خوشی ہوئی ہوگی کہ ہمارا ملک اب عالمی موٹر سائیکل میکنگ ریس میں صرف تین ملکوں سے پیچھے ہے مگر خان صاحب ایک اچھے کپتان رہ چکے ہیں اور ان کی فطرت میں جیت کی لگن شامل ہے انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ چمپئن بنانے کی ٹھانی تو آخرکار انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کی دنیا کا چمپئن بنا کر دم لیا اب انہوں نے پاکستان کو اوپر لے جانے کی ٹھانی ہے جس پر کافی محنت کررہے ہیں اور بہت سے پاکستانیوں اور پاکستان کے بہت سارے شعبے مثال کے طور پر معیشت، قانون، صحت و تعلیم وغیرہ وغیرہ کافی اوپر پہنچ چکے ہیں اور اوپر سے پیغام بھیج رہے ہیں کہ نیچے رہ جانے والوں ہم آپ کا اوپر انتظار کررہے ہیں۔
بات ہورہی تھی موٹر سائیکل بنانے میں پاکستان کی عالمی رینکنگ کی خان صاحب نے اب ٹھان لی ہے کہ اس مقابلے میں بھی پاکستان کو دنیا میں اوّل نمبر پر لے کر جانا ہے۔ یہ تو خیر مزاح کی بات ہے مگر موٹر سائیکل والی بات خود خان صاحب نے بتائی ہے۔ خان صاحب نے معیشت کی بہتری کی طرف گامزن ہونے کی بھی ہمیشہ کی طرح نوید سنائی جو کہ ان کا وہ خواب ہے جو وہ خود بھی دیکھتے ہیں اور پوری قوم کو دکھانے میں لگے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے پاکستان میں بے شمار چیزوں کو نایاب یا کمیابی کی سطح تک پہنچایا ہے جس کی وجہ سے بہت ساری چیزیں اوپر چلی گئی ہیں اور اسی لیے اب تیزی سے پاکستان ان شعبوں میں بھی امتیازی حیثیت سے اوپر آنے لگا ہے جس کی خوشی بھی ہے دکھ بھی ہے اور ان ملی جلی کیفیات کے ساتھ دل ڈوب بھی رہا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا؟ پاکستان میں عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے پر گزشتہ کئی دھائیوں سے کوئی خاطر خواہ اور نیک نیتی سے کام سرے سے ہوا ہی نہیں لوگ ایسی ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جو کہ مہنگے بھی ہیں اور غیر محفوظ بھی ہیں۔ اب لوگوں کے پاس دو ہی مواقع ہیں یا تو پیدل چلیں اور صحت اچھی رکھیں یا پھر موٹر سائیکل خریدیں اور عیش کریں۔ سردی میں سرد ہواؤں اور گرمی میں گرم ہواؤں کے مزے لیں اس سواری کی بہتات نے ملک کے ہر اسپتال کے شعبہ ہڈی و جوڑ کو بھی آباد کیا ہوا ہے موٹر سائیکل کی سواری کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر گرے نقصان خربوزے ہی کا ہونا ہے۔ اسی طرح انصاف کی فراہمی کا ادارہ یعنی عدلیہ کو لے لیں پہلے لاقانونیت کے معاملے میں ہم بہت پیچھے تھے مگر اب ہم اوپر آرہے ہیں۔
یاد آیا گزشتہ دنوں یہ خبر بھی گردش کرتی ہوئی سامنے آئی کہ سابق منصف اعلیٰ گلزار احمد نے حکومت سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے رینجرز اور پولیس کے حفاظتی دستوں کا تقاضا کیا ہے، کچھ دنوں قبل ایک تحریر نظر سے گزری جس میں لکھا تھا کہ جنوبی افریقا کے سابق صدر نیلسن مینڈیلا آزادی کے بعد جنوبی افریقا کے پہلے صدر بنے۔ ان کا معمول تھا کہ صبح سویرے جاگر پہنے واک کیا کرتے سیکورٹی اداروں نے جب ان سے سیکورٹی لینے کے لیے کہا تو انہوں نے سیکورٹی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا مجھے سیکورٹی کی کوئی ضرورت نہیں یہ ملک میرا اپنا ہے یہاں کے لوگ میرے اپنے ہیں مجھے ان سے کوئی خطرہ نہیں اور اپنے معمول کے مطابق وہ بغیر سیکورٹی کے اپنے فرائض بھی انجام دیتے رہے جب ان کی مدت صدارت ختم ہوئی تب بھی وہ چاہتے تو تاحیات صدر رہتے اور تاحیات سیکورٹی لے سکتے تھے مگر انہوں نے صدارت کو بھی خیر باد کہا اور صدارت کے بعد بھی سیکورٹی لینے سے انکار کردیا اور سیاست سے ریٹائر منٹ کے بعد بھی وہ ایک عام آدمی کی طرح بازاروں اور سڑکوں میں گھومنے پھرتے رہے، جسٹس محمد منیر سے لے جسٹس گلزار احمد تک سب اس مملکت خدادا کے منصف اعلیٰ رہے ان سب حضرات نے یہیں پرورش پائی اور بڑی محنت سے عدلیہ کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کا بول بالا کیا ریٹائر منٹ کے بعد ان کو سیکورٹی کی ضرورت اور وہ بھی تاحیات سیکورٹی کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے کیا یہ ملک ان کا اپنا نہیں؟ کیا یہاں کے عوام ان کے اپنے نہیں؟ کیوں بھاری بھرکم تنخواہیں مراعت لینے والے جج ساری زندگی کمرہ عدالت میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں مگر ان کی اپنی ریٹائرمنٹ تک سائل کی ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں فائلیں انصاف کے انتظار میں منصف اعلیٰ کی میز پر پڑی رہ جاتیں ہیں۔
ایک وقت آئے گا کہ ہمارے ملک کا شمار بھی اس دنیا کے اس پہلے ملک میں ہوگا جہاں سب سے زیادہ فائلیں انصاف کے انتظار میں رہتی ہوں گی کچھ دنوں بعد خان صاحب یہ بھی خبر دیں گے کہ دنیا کے سب سے مہنگے تعلیمی ادارے ہمارے ملک میں ہیں اس لیے کہ حکومتی تعلیمی ادارے بھی تعلیم کی تجارت میں لگے ہوئے ہیں اس لحاظ سے بھی ہماری عالمی رینکنگ نمایاں مقام پر ہوگی بات یہیں نہیں رکے گی بلکہ یہ بھی وزیر اعظم فخر سے قوم کو بتائیں گے یا جتائیں گے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا بلکہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں لوگ فٹ پاتھوں پر لگے دسترخوانوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور تو اور سب سے زیادہ لو گ حکومت کی قائم کردہ پناہ گاہوں میں رہتے ہیں کیونکہ ہمارا ملک بیروزگاری کے شکار ممالک کی فہرست میں اوّل نمبر پر آگیا ہے کیونکہ خان صاحب کو ایک کروڑ نوکریاں کہیں سے نکال کر لانی تھی اور دس لاکھ گھر بے گھر خاندانوں کو دینا تھا یہ منصوبے بھی پائپ لائن میں ہیں اور شاید ان کے رخصت ہونے سے پہلے پائپوں سے باہر نہیں آئیں گے ہمیں پہلے ہی خان صاحب نے تلقین کر رکھی ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اس طرح کی دوڑ ہمارے سامنے لگی ہوئی ہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا