کیا غریب کو جینے کا حق نہیں

528

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک ملک کی قیادت مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ ملک کی تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو چودھری، وڈیرے، سردار ہی حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کی سیاست کی بنیاد عبادت نہیں بلکہ اُن کی بے پناہ دولت کے انبار ہیں جن کی بنیاد پر وہ غریب سے اُس کا ووٹ باآسانی خرید لیتے ہیں دوسرا المیہ ہے کہ عوام میں آج تک سیاسی شعور بیدار نہ ہوسکا، ملک کے بڑے بڑے دانشوروں، قلم کاروں نے اپنا کردار ادا کیا اور آج بھی شعور بیدار کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔
ہمارے ملک کی سب سے بڑی اور پرانی عملی جماعت جماعت اسلامی جو ہر عوامی مسئلے پر نہ صرف آواز حق بلند کرتی ہے بلکہ اُس کے لیے عملی اقدام بھی کرتی ہے، کالے بلدیاتی قانون کو واپس لینے کے لیے جو تحریک جماعت اسلامی نے چلائی تو حکومت سندھ نے اُس کے آگے گھنٹے ٹیک دیے کاش کے یہ پاکستانی قوم ایک موقع حکومت کرنے کا جماعت اسلامی کو بھی دے کر دیکھ لے مجھے قومی اُمید ہے کہ ملک کی اور قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ اصل ریاست مدینہ کا خواب صرف جماعت اسلامی ہی پورا کرسکتی ہے۔ ہمارے ملک کے ایک ایماندار سابق چیف جسٹس وجیہ الدین نے عام لوگ اتحاد کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی ہے، وہ یہ کہتے ہیںکہ عوام اپنے ہی لوگوں میں سے اپنے نمائندے کا چنائو کریں جو اُن کے مسائل کو اور علاقے کے مسائل کو جانتا ہو، وہ ذاتی طور پر جماعت اسلامی کو بے حد پسند کرتے ہیں اور آنے والے الیکشن میں ہوسکتا ہے وہ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں، وہ ماضی میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا عہدہ چھوڑ کر آئے ہیں اگر وہ پارٹی میں رہتے تو آج وہ صدر پاکستان ہوتے مگر اُن کو عمران خان کے گرد 40 چور پسند نہیں تھے اور بھی وجوہات تھیں جن پر کبھی بعد میں روشنی ڈالوں گا۔ خیر اصل موضوع جو مہنگائی ہے جس کا رونا پوری قوم رو رہی ہے مگر حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی وہ تو بس ایک ہی بات کرتی ہے پاکستان میں اور ممالک کے مقابلے میں مہنگائی بہت کم ہے تو اگر آپ دیگر ممالک کی بات کرتے ہیں تو اُن کی عوام کے پاس وسائل بھی ہیں آپ ایک مزدور کو کیا دے رہے ہیں، اعلان آپ کرتے ہیں 25 ہزار کا جو کوئی نہیں مانتا، آج بھی مزدور کو 10 سے 12 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے، سیکورٹی گارڈ جو جان دینے کو تیار رہتا ہے اور 8 سے 10 گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے آپ کے ملک میں اُس کو 10 سے 12 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔ اب بات کرتا ہوں اُس ایٹم بم کی جو حکومت نے گرانے کا اعلان کردیا ہے۔
نیپرا نے دسمبر کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 3 روپے 9 پیسے فی یونٹ مزید اضافہ کردیا ہے۔ حالیہ اضافے سے صارفین پر 26 ارب 40 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ عوام اتنے بیوقوف تو نہیں کہ وہ یہ بات نہ سمجھ سکیں کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی گرانی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اثرات مہنگائی کی مجموعی شرح پر بھی تو مرتب ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرپشن کی بنیادی وجہ مہنگائی ہے یا مہنگائی کی بڑی وجہ کرپشن۔ ابن آدم یہ سمجھتا ہے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کرپشن کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مل جائے تو مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور مہنگائی کی وجوہات تلاش کرکے کرپشن پر قابو پانا ممکن ہے۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان کی سیاست بھی کرپشن کے نعرے کے گرد گھومتی ہے جس کو وہ تاحال قابو نہ کرسکے۔ اُن کی اپنی کابینہ میں کرپٹ لوگوں کی کمی نہیں، نجانے ایسے کرپٹ عناصر کو وزیراعظم صاحب کیوں برداشت کررہے ہیں کوئی دال میں کالا تو نہیں ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس نے سابقہ حکومتوں کے ریکارڈ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم اس کو تسلیم بھی کرتے مگر اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی عملی کوشش نظر نہیں آتی۔
جب عوام کی قوت خرید کم ہو تو کرپشن میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ بیرونی قرضے تو حکومت لے لیتی ہے مگر یہ نہیں سوچتی کہ اس کا اثر عام آدمی پر کتنا پڑتا ہے۔ میں نے اُس وقت جب حکومت منی بجٹ پیش کرنے کے بعد فرما رہی تھی کہ اس منی بجٹ کا غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ حکومت عوام کو ہمیشہ سے بیوقوف بناتی آرہی ہے۔ حکومت بس ایک کام بے حد اچھا کرنا جانتی ہے وہ ہیں جھوٹے دعوے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز میں بھی آج بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی ہے، حکومتی سبسڈی والی سستی دالیں، گھی اور آئل وہاں سے غائب کردی گئیں، دوسری طرف ایران سے تیل اور گھی کراچی کی مارکیٹ میں کم ریٹ پر دستیاب ہے۔ ایرانی کھانے کا تیل 300 روپے کلو میں فروخت ہورہا تھا جس پر اب پابندی لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کیوں کہ یہ تیل بغیر ڈیوٹی کے غیر قانونی طور پر فروخت ہورہا ہے۔ عوام تو خوش ہیں مگر حکومت ناخوش ہے۔ عوام کی خوشی تو کسی کو راس نہیں آتی، بقول امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے وزیراعظم کے گرد لوگ خوش جب کہ 22 کروڑ عوام رونے پر مجبور۔ 70 برسوں میں 31 ہزار ارب اور پی ٹی آئی نے 3 برسوں میں 21 ارب قرضہ لیا۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک کو آئی ایم یاف کے حوالے کردیا۔ معروف تجزیہ نگار حسن نثار نے کیا خوب بات کی ملک میں بندروں کے ہاتھ میں استرے اور ماچس ہیں کوئی استرا چلائے گا تو کوئی جنگل جلائے گا۔ یہاں تو یہ سلسلہ ہے کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔
ابن آدم اب آخر میں حکومت کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہے کہ اس وقت ہماری معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ دوسری طرف اللہ کے انعام و اکرام بھی اس قوم پر متعدد ہیں۔ بس ضرور ہے تو ہمت اور حوصلے کی، بلوچستان کے ریکوڈک ذخائر اتنے ہیں کہ تمام قرضے ادا کرنے کے بعد بھی سو سال تک ہماری ضروریات پوری ہوسکتی ہیں میں یہ بات بھی جانتا ہوں کہ یہ کام کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ صرف سندھ میں اتنا تیل اور کوئلہ ہے کہ پاکستان کے سارے قرض اُتر سکتے ہیں، بلوچستان گیس اور سونے سے مالا مال ہے۔ پنجاب جیسی زرخیز زمین پوری دنیا میں نہیں ہے، صوبہ سرحد قیمتی پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ 600 میل سمندری ساحل جو دنیا کے بہترین ساحل اور قدرتی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے مگر ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے بس اگر وزیراعظم صاحب ہمت اور حوصلے سے کام لیں تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے ورنہ نوحہ اس قوم کا مقدر بنا رہے گا۔