اسلام آباد (آن لائن/مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں آمدن سے زاید اثاثہ جات کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، ان کے اہل خانہ اور دیگر شریک ملزمان کی ضمانت سے متعلق کیس پر سماعت آج (جمعرات کو) پھر ہوگی۔ بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے آغا سراج کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ جیل ہر ایک کے لیے برابر ہونی چاہیے، آغا سراج درانی کے پاس ان کے لیڈر کی اعلیٰ مثال موجود ہے‘آپ کے لیڈر نے اتنے سال جیل کاٹی ہے تو آپ کیوں نہیں کاٹ سکتے؟آغا سراج درانی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ میرے موکل پر آمدن سے زاید اثاثہ جات کا کیس بنایا گیا‘ ہمارا کیس پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ پر لگے الزامات جیسا ہے‘ عدالت عظمیٰ نے خورشید شاہ کی ضمانت منظور کی ہے‘ نیب کی جانب سے آغا سراج درانی پر ایک ارب 60 کروڑ کا الزام لگایا گیا ہے‘ 10 کروڑ مالیت کی گھڑیاں بتائی جا رہی ہیں‘ آغا سراج درانی پر بے نامی دار رکھنے کا الزام ہے‘ بے نامی اثاثہ جات کا آغا سراج درانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آغا سراج درانی نے 82 ملین کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ ظاہر کی‘ آپ کو وضاحت تو دینی ہے کہ کروڑوں کے اثاثے کیسے بنائے؟ 10 کروڑ روپے مالیت کی گھڑیاں کہاں سے برآمد ہوئیں؟ جس پر آغا سراج درانی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نیب نے آغا سراج درانی کی انکم کا تعین درست نہیں کیا۔ اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے مطابق منور آغا سراج درانی کا گارڈ ہے‘ منور آغا کے پاس کئی ملین موجود ہیں۔ وکیل آغا سراج درانی نے موقف اپنایا کہ گارڈ تو نیب کہتا ہے، منور سیاسی کارکن ہے، معاملہ قابل تفتیش ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ منور مبینہ گارڈ کے ڈیفنس کے پلاٹ کی فوٹو کاپی آپ کے قبضے میں کیا کر رہی تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو تعجب اس بات پر ہے کہ نیب نے کروڑوں روپے مالیت کی شاٹ گنز کو شامل نہیں کیا‘ آج ہالینڈ اینڈ ہالینڈ کی شاٹ گن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آغا سراج درانی کو ضمانت درکار نہیں‘آغا سراج جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے ،عدالت گھر کو جیل قرار دینے والے معاملے کو بھی دیکھے گی ۔