حجاب کیخلاف عبوری حکم کے باوجود مسلم طالبات ڈٹ گئیں ،عدالتی کارروائی جاری

330

حجاب پر پابندی کے تنازع میں کرناٹک عدالت میں سماعت کئی روز سے جاری ہے ، بدھ کو دوران سماعت سینئر وکیل اور پروفیسر روی ورما کمار نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ قاعدہ مطلع کرتا ہے کہ جب تعلیمی ادارہ یونیفارم تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے والدین کو ایک سال پہلے نوٹس جاری کرنا ہوگا۔

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ معاشرے کے تمام طبقات میں سینکڑوں مذہبی علامتیں ہیں، کمار نے پوچھا: “کالج انتظامیہ صرف حجاب کو ہی کیوں  نشانہ بنا رہی ہے”

دوسری جانب حجاب کی وجہ سے ایک ہفتہ تک بند رہنے کے بعد کئی تعلیمی ادارے آج کھول دیے گئے، تاہم پہلے دن ہی کئی پری یونیورسٹی کالجوں میں افراتفری پھیل گئی کیونکہ برقع پوش مسلم طلباء کو اندر نہیں جانے دیا گیا۔

ہبلی کے ایس جے ایم وی ویمن کالج میں حجاب کو لے کر تنازعہ بڑھا تو مینجمنٹ نے کالج ہی بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ریاست میں ہائی کورٹ کی طرف سے اسکولوں اور کالجوں میں ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کا عبوری حکم دیا گیا ہے، لیکن کئی مقامات پر طالبات حجاب اور برقع پہن کر پہنچیں۔ لڑکیاں حجاب نہیں ہٹانے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر حال میں حجاب پہنیں گی۔

خبروں کے مطابق ہبلی کے ایس جے ایم وی وویمن کالج میں بھی مسلم طالبات، حجاب اور برقع پہن کر پہنچی تھیں، جب کالج انتظامیہ نے انہیں ہائی کورٹ کے حکم کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد بھی لڑکیوں نے حجاب اتارنے سے واضح طور پر انکار کردیا۔ انتظامیہ نے کافی دیر تک طالبات کو سمجھانے کی کوشش کی اور جب اندازہ ہوا کہ طالبات ماننے کے لئے راضی نہیں ہیں تو پھر کالج انتظامیہ نے کالج میں چھٹی کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ کالج میں داخلہ تو ضوابط کے مطابق ہی ہوگا۔ دوسری جانب طالبات کا کہنا ہے کہ ہم برقع تو ہٹا سکتے ہیں، لیکن حجاب نہیں ہٹائیں گی۔ طالبات کی ضد پر کالج انتظامیہ نے کالج میں چھٹی کا اعلان کردیا۔

کالج کے انتظامی افسر لنگ راج انگاڑی نے کہا کہ سبھی طالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں ڈریس کوڈ پر عمل کرنا ہوگا، اس کے لئے ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے اور اس پر مکمل طور پر عمل کیا جانا ہے۔ اس درمیان کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب تنازع پر سماعت جا ری ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ میں سینئر وکیل اور پروفیسر روی ورما کمار نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ قاعدہ مطلع کرتا ہے کہ جب تعلیمی ادارہ یونیفارم تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے والدین کو ایک سال پہلے نوٹس جاری کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کالج کوڈ کے مطابق حجاب پر پابندی ہے تو اسے ایک سال پہلے مطلع کرنا چاہیے تھا۔

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ معاشرے کے تمام طبقات میں سینکڑوں مذہبی علامتیں ہیں، کمار نے پوچھا: “وہ صرف حجاب کو ہی کیوں  نشانہ بنا رہے ہیں؟ کیا اسے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟

حجاب پر پابندی کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والی مسلم لڑکیوں نے دلیل میں عرض کیا کہ سر پر اسکارف پہننا ایمان کا ایک معصوم عمل ہے نہ کہ مذہبی نمائش. انہوں نے تین ججوں کی بنچ کے سامنے استدلال کیا کہ ہندوستان میں سیکولرازم ‘ترکی سیکولرازم’ کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک مثبت ہے جہاں تمام مذاہب کو سچ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

 اس معاملے میں منگل کو طالبات کے وکیل نے کہا تھا کہ حجاب اسلام کا حصہ ہے