ایرانی جاسوس کی گرفتاری ملکی سلامتی کے لیے خطرہ؟

1173

اطلاع ہے کہ اسلام آباد میں ہاؤس بلڈنگ فنانسنگ کارپوریشن میں 19گریڈ کے ایک افسر وصال حیدر نقوی کو اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ ایران کی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتا تھا اور اس کے فوری بعد سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز سات فروری کو پاکستان پہنچے اور یہاں وزیر اعظم، آرمی چیف اور وزیر ِداخلہ سے اہم ملاقات کی اور پاکستان سے حوثی باغیوں کے مقابلے کے لیے طویل بات چیت اور پاکستان سے مدد کی درخواست بھی کی۔ جسارت میں 10فروری 2022ء کو چھپے آرٹیکل میں ہم نے ایران کے اسی کردار کو بیان کیا تھا کہ وہاں سے یہ صورتحال 2016ء سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ایران نے وصال حیدر نقوی کے بارے میں یہ کہا ہے یہ موساد کا ایجنٹ ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے 2016ء سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اہلکار کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد اس کے نیٹ ورک سے متعلق ایران سے تفصیلات مانگی تھیں اور اس کے فوری بعد اُس وقت کے ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے اپنے ایک جاری بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ایرانی صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بلوچستان سے گرفتار ہونے والے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ایرانی خفیہ ایجنسی کے اہم عہدیدار محمود علی کا کہنا ہے وہ اور ان کے ساتھی ایرانی افواج کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے اور ایران میں ہر سطح پر اور بہت بڑی تعداد میں اسرائیلی خفیہ ایجنٹ کے افراد موجود ہیں۔ 2016ء بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اہلکار کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد ایران کا کہنا ہے کہ میڈیا میں بھارتی جاسوس کی گرفتاری سے متعلق ایسی باتیں پھیلائی گئی ہیں جن سے ایران اور پاکستان کے درمیان موجود دوستی اور اخوت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے قبل پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ ایرانی صدر اور پاکستانی آرمی چیف کی ملاقات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان میں سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ مگر ایرانی صدر اس خبر کی تردید کر چکے ہیں۔
وصال حیدر نقوی کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ پاکستان میں ایرانی مفادات کے لیے ’’منی لانڈرنگ‘‘ کا کام کر رہا تھا اور ہر طرح کی دہشت گردی کے لیے دہشت گردوں کی فنڈنگ کی جاتی تھی۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارتی ایجنٹ کو جو مبینہ طور پر نیوی کے حاضر سروس افسر ہیں۔ بلوچستان سے حراست میں لیا گیا تھا۔ دو روز قبل بھارت کے مبینہ جاسوس کا اعترافی ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تاہم بھارت نے کلبھوشن یادو کے اعتراف کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ لیکن بعد میں بھارت نے بھی تسلیم کیا کہ وہ بھارتی تھا اور ایران سے دوستی کے تحت چاہ بہار میں مقیم تھا۔ جاسوس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایران سے پاکستان داخل ہوتے وقت تین مارچ 2016ء کو گرفتار ہوا اور اس نے 2003 میں ایران کے علاقے چاہ بہار میں ایک چھوٹا سا بزنس شروع کیا تھا۔
ایران نے 2016 میں بھی کہا تھا کہ ’قدرتی طور پر جو لوگ دو اسلامی ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان فروغ پاتے تعلقات سے خوش نہیں ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے ناخوشگوار باتوں اور کبھی کبھی توہین آمیز بیانات پھیلا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر حسن روحانی کے حالیہ دورۂ پاکستان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو کمزور کریں اور ایران پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو خراب کر سکیں۔ اب یہی توقع کی جارہی ہے کہ ایران یہی موقف اختیار کرے گا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانسنگ کارپوریشن میں19گریڈ کے ایک افسر وصال حیدر نقوی کا ایران سے نہیں موساد سے تعلق ہے۔2016ء میں ایران کا کہنا تھا کہ ایرانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ گزشتہ 70 سالہ تاریخ میں پاکستان کی مغربی سرحدوں پر کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا گیا۔ ’ایران کی سلامتی پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے‘۔ لیکن اب 2022ء میں ایران اور پاکستان کی سرحد سب سے زیادہ خطرناک سر حد بن چکی ہے۔
2016ء کو ایرانی حکومت کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ ایران کا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ کلبھوشن یادو کی گرفتاری بھی ایران سے پاکستان آتے ہوئے ہوئی۔ اُس وقت وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے اقبالی بیان کی روشنی میں اس کے ساتھی راکیش عرف رضوان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور اْنہیں پاکستان کے حوالے کرنے کے بارے میں ایرانی حکام سے رابطہ کیا ہے۔ یادو کے ہاتھوں کراچی میں را کے ایما پر متحدہ قومی موومنٹ کو مبینہ طور پر پیسے دینے کے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران نظریاتی اہداف کے حصول اور خطے کے ممالک میں عدم استحکام کے لیے متعدد عسکری گروپوں کو استعمال کر رہا ہے۔ انہی ملیشیاوں میں ایک ’زینبیون بریگیڈ‘ بھی ہے۔ یہ تنظیم 2012ء کو ایرانی پاسداران انقلاب نے قائم کی تھی۔ اس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجووں کو شام میں لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ شام میں ’کام‘ مکمل ہونے بعد جب ان جنگجووں کو واپس ایران لایا گیا تو ایران نے اس گروپ کو پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات اتارو چڑھاؤکا شکار رہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے زینبیون بریگیڈ کی آڑ میں ایران اپنے پڑوسی ملک پاکستان کو بلیک میل کرنا چاہے گا اور اس گروپ کو پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروپ کو پاکستان کے لیے ’ٹائم بم‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
2011ء کو شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف اٹھنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے بعد ایران نے مقامات مقدسہ کے دفاع کی آڑ میں کئی عسکری گروپ تشکیل دیے۔ ان میں ایک ’زینبیون‘ ملیشیا قائم کی گئی جس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجووں کو بھرتی کیا گیا۔ یہ تنظیم ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کے مقتول کمانڈر قاسم سلیمانی کو براہ راست جواب دہ تھی اور اس نے ایرانی مدد کے ساتھ شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع کے لیے لڑائی میں حصہ لیا۔ شام میں سیاسی اور عسکری تغیرات اور دمشق میں ایرانی اثرو نفوذ میں کمی کے بعد افغانستان۔ عراق۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں سے آئے جنگجووںکو بھی واپس ان کے ملکوںکو بھیجا گیا لیکن چند سال قبل ایرانی حکومت نے ان جنگجووںکو ایران کی شہریت دینے کی بھی بات کی تھی۔
لیکن پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے مطابق شام سے ایران لوٹنے والے زینبیون بریگیڈ کے دسیوں جنگجو خفیہ اور غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے بھرتی کیے گئے ان جنگجووں کو اب شام سے واپس پاکستان لایا جا رہا ہے کیونکہ شام میں ایران کو اب ان کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اُس وقت بھی پاکستانی حلقوں کو تشویش اور خدشہ ہے کہ شام سے واپس آنے والے یہ جنگجو پہلے سے فرقہ واریت کا شکار رہنے والے ملک میں مزید مذہبی منافرت پھیلانے اور خطے میں نئی جنگ کو ہوا دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن طالبان اور امریکا کے درمیان اس لڑائی نے ایران کو پاکستان کے بجائے افغانستان۔ عراق۔ شام لبنان اور لیبیا میں الجھائے رکھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے بعض فرقہ وارانہ فسادات اور واقعات میں ایران کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کی دی جاسکتی ہے جسے پاکستان اور ایران کی سرحد سے گرفتار کیا گیا۔ کلبھو شن نے پاکستان کے خلاف جاسوسی کے لیے ایرانی سرزمین کا آزادانہ طور پر استعمال کیا تھا۔ ہم نے قبل ازیں بھی لکھا ہے ایرانی جاسوسی کا مقصد اسرائیلی اور بھارتی جاسوسی ہے اور یہ سب ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔