سیاسی جماعتوں کی عدم کارکردگی کی وجہ ملکی نظام اور طرز حکمرانی ہے

468

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) سیاسی جماعتوں کی عدم کارکردگی کی وجہ ملکی نظام اور طرز حکمرانی ہے‘ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جماعتیں ہیں‘ اقتدار میں آکر صرف اپنی تجوریاں بھرتی ہیں‘ ایم کیو ایم نے وزارتوں کے لیے کراچی کے مسائل کو پس پشت ڈال دیا‘ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی باہمی جنگ محض نورا کشتی ہوتی ہے‘ یہ ایک دوسر ے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ بن رضی، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد، بیرون ملک مقیم اسکالر ڈاکٹر سید شاہد عقیل اور ممتاز تاجر رہنما صدیق حسن نے جسارت کے سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک کی 4 بڑی سیاسی جماعتوں نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا؟‘‘ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ ہو یا اب تحریک انصاف یہ تینوں حکمران طبقات کی جماعتیں ہیں‘ ان پارٹیوں میں ہی حکمران طبقے کے چہرے موجود ہیں‘ یہ حکمرانی کے لیے اپنی باری کے انتظار میں رہتے ہیں‘ یہ پارٹیاں چکی کے پارٹ ہیں جن میں عوام پس رہے ہیں لہٰذا کراچی ہو یا ملک کا دوسرا کوئی حصہ، ان کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ‘ یہی حکمران طبقہ 74 سال سے اس ملک پر مسلط ہے۔ اسامہ بن رضی کا مز ید کہنا تھاکہ کراچی کے علاوہ بقیہ پورے ملک کو تو انہوں نے اپنا مکمل غلام بنا لیا ہے اور بڑی حد تک کراچی کو بھی غلام بنا لیا ہے لیکن کراچی میں شور اٹھتا رہتا ہے‘ پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو یہ جاگیرداروں کا وہ پلیٹ فارم ہے جس نے سندھ کے اوپر اپنی آمریت قائم کی ہوئی ہے جس کو یہ اپنی جمہوری نمائندگی کہتے ہیں‘جاگیردار طبقہ فرسودہ اور آمرانہ ذہنیت کا حامل ہوتا ہے اس کا شہروں کے پڑھے لکھے، روشن خیال، سیاسی طور آزاد اور ایک ترقی پسند معاشرے کے ساتھ تضاد ہوتا رہتا ہے اور وہ شہری ماحول کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہے‘ اسی لیے وہ اس کو قبول کرنے سے عملًا انکار کرتا ہے اور اپنی بالادستی قیام رکھنے کے لیے مواقع کا انتظار کرتا ہے۔ اسامہ بن رضی کا کہنا تھاکہ متحدہ کا کراچی سے تعلق تاریخی لوٹ مار، کرپشن اور غنڈہ گردی کے حوالے سے ہے‘ پاکستان کا حکمران طبقہ 3 عناصر کا مجموعہ ہے جن میں مقتدرہ یا بیورو کریسی، دوسرا جاگیردار اور تیسرے کاپوریٹ سرمایہ دار شامل ہیں‘ ان کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اس نظام میں سرمایہ دار اور جاگیردار کی حیثیت جونیئر شراکت دار کی ہے‘ سینئر شراکت دار نے سندھ کی حکمرانی کا ٹھیکا پیپلز پارٹی کے جاگیرداروں کو دیا ہوا ہے جب کہ بقیہ ملک پی ٹی آئی میں جمع کردہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سپرد ہے‘ یہی حال مسلم لیگ کاہے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا ایک الگ کلب ہے جو اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں‘ ن لیگ کا تو یہ کہنا ہے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کا تو لگانے سے کوئی تعلق نہیںہے‘ ان حالات میںکراچی چیخ رہا ہے‘ اسی لیے جماعت اسلامی سوال اٹھاتی ہے کہ حکمران طبقہ کراچی میں کام کیوں نہیںکرتا۔ سید شاہد عقیل کا کہنا تھاکہ معاملہ صرف کراچی یا ملک کے کسی ایک حصہ کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کاہے جس کا سبب ملک کا نظام اور طرز حکمرانی ہے جو بدعنوان اور اِجارہ دارانہ یا آمرانہ ہے‘ اگر ہم سندھ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلے گاکہ 1934ء میں جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا تواس وقت سے سندھ کی سیاست آج تک کم و بیش اسی ڈگر پر چل رہی ہے‘ انہی خاندانوں کی اجارہ داری ہے اور انہی کو منتقل ہوئی‘ پارلیمنٹ کا بہت بڑا حصہ آج تک انہی کے ہاتھ میں ہے‘یہی حال پنجاب اور بلوچستان کا بھی ہے‘ بہاول پور میں جو لوگ 1906ء میں وزیر اعلیٰ تھے‘ اُنہی کے خاندان کے پاس آج تک سیاست و اِنتخابات کی اجارہ داری ہے‘ تاجِ برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں جو بڑے بڑے خانوادے آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسند اقتدار پر فائز تھے، جن کے پاس1930ء کے اقتدار کی مسند تھی، آپ کو اُن ہی شخصیتوں کی نسلیں اقتدار پر بیٹھی نظر آئیں گی‘اس دوران الیکشن ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، جمہوریت کے نام پر اَدوار بدلتے رہے‘کبھی فوجی اور کبھی سیاسی آمریت آئی‘ مگر اسمبلیاں اور اقتدار ان خانوادوں سے باہر کبھی نہیں گیا یہی حال شہروں کا بھی ہے جہاں بڑے بڑے سرمایہ دار سیاست اور اقتدار میں جاگیرداروں کے شیئر ہولڈرز بن گئے‘ان کا پورا دور اقتدار اپنی تجوریاں بھرنے میں گزر جاتا ہے‘ جب قومی اسمبلی کا الیکشن 10 سے 20 کروڑ روپے سے کم سرمائے سے نہیں لڑا جا سکے تو پھر ایسا تو ہو گا کہ انتخابی نظام کے نتیجے میں شہر سرمایہ داروں اور مال داروں کے ہاتھ میں آئے اور دیہات جاگیرداروں کے پاس چلے گئے ‘ ملکی سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اجارہ داری ہے‘ یہ اقتدار کو بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پرکنٹرول کرتی ہے‘ بظاہر دیکھنے میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جو باہمی جنگ نظر آتی ہے‘ وہ محض نورا کشتی ہوتی ہے اور یہ ایک دوسر ے کے مفادات کے محافظ ہوتے ہیں کیونکہ یہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیداوار ہیں۔ وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ افسوناک بات یہ کہ نواز لیگ سمیت وفاق میں اقتدار حاصل کرنے والی کسی بھی جماعت نے کراچی کی طرف توجہ نہ دی جس کی وجہ سے کراچی کے حالات خاصے خراب ہو چکے ہیں‘ کراچی اور سندھ سے کامیاب ہونے والی متحدہ قومی موومنٹ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی طرح چوتھی پارٹی مسلم لیگ نے بھی اپنے کسی بھی دور میںکراچی کی ترقی وتعمیر کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا‘ جب کہ کراچی متحدہ قومی موومنٹ کی طاقت کا مرکز رہا‘ ان کی35 سالہ سیاست کے دوران کراچی اور حقوق کے لیے محض نعرے بازی کی حد تک کام کیا گیا عملاً اس نے ذاتی اور پارٹی مفادات سے آگے بڑھ کر کچھ کام نہیں کیا۔ صدیق حسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نے اپنے2 ادوار ایم کیو ایم کی خوشامد اور اسے منانے میں گزارے اس مقصد کے لیے انہوں نے کراچی کا مکمل اختیار متحدہ کو دے دیا اور متحدہ کراچی کے مفادات کے بجائے اپنے پارٹی مفادات میں لگے رہی‘ کبھی ایک وزارت اور کبھی 2 ورازتیں مانگتی رہی‘ متحدہ قومی موومنٹ مختلف جماعتوں کے ساتھ حکومت میں رہی اس کے باوجود کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، ا س کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ متحدہ کی تمام تر توجہ کرپشن کی طرف تھی۔