اسلام آباد(خبر ایجنسیاں)حال ہی میں عہدے سے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو فراہم کردہ سیکورٹی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔ جیورسٹ فاؤنڈیشن کے ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی فول پروف سیکورٹی حاصل کرنے کے خلاف درخواست دائر کردی۔درخواست گزار ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے مؤقف اختیار کیا کہ جسٹس گلزار احمد کا ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی سکیورٹی کا تقاضا کرپشن، ڈر اور اللہ پر کامل یقین نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اور سیکورٹی کو وسیع تر قومی مفاد کہا جو کہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کا فول پروف سیکورٹی کا تقاضا بدنیتی، قومی خزانے پر بوجھ اور ذاتی مفاد پر مبنی ہے اس لیے عدالت سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے خط کو غیر قانونی، غیر آئینی اور قانون سے ماورا قرار دے۔ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے استدعا کی کہ عدالت تمام فریقین کو تمام مرعات واپس لینے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے احکامات جاری کرے اور عدالت وصول ہونے والی رقم کا 20 فیصد درخواست گزار کو فراہم کرنے کے احکامات جاری کرے۔درخواست میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد، وزارت قانون، وزارت داخلہ اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس (ر) گلزار احمد کو ٹیکس کی رقم سے بھاری سیکورٹی فراہم کی جارہی ہے جبکہ ان کی مدت کے دوران زیر التوا مقدمات میں مزید 10 ہزار کا اضافہ ہوا اور قانون کی بالادستی سے متعلق فہرست میں پاکستان 130 سے 139 ویں درجے پر آگیا ہے۔درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلے کا حوالہ دیا گیا اس قانونی نظیر میں عدالت نے سابق چیف جسٹس محمد افتخار چودھری کی سیکورٹی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ ریٹائر جج مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد صرف عہدے کی خصوصی مراعات حاصل کرسکتے ہیں جو (چھٹیوں، پینشن اور مراعات) سے متعلق سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 میں درج ہے۔درخواست میں انکشاف کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس تصدق حسین جیلانی، انور ظہیر جمالی، ناصر الملک، نواز عباسی، طارق پرویز کی جانب سے سیکورٹی پروٹوکول استعمال کیا گیا جس کے وہ مستحق نہیں تھے۔