مقروض قوم کی خوشی یا بے راہ روی

980

گزشتہ صدی بلکہ اکیسویں صدی کے اوائل تک شاید آپ نے اس کا نام بھی نہیں سنا ہو گا… مگر اب جب سے ہمارے ذرائع ابلاغ کو نام نہاد آزادی حاصل ہوئی ہے اور انہوں نے اس آزادی کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے پر اپنا سارا زور صرف کر دیا ہے ان آزاد ذرائع ابلاغ کی پوری کوشش اس مقصد کے لیے ہے کہ معاشرے میں کوئی مثبت قدر باقی نہ رہ جائے چنانچہ اس ہدف کے پیش نظر گزشتہ چند سال سے ’’یوم بے غیرتی‘‘ کے نام سے ایسا تہوار معاشرے میں متعارف اور رائج بلکہ زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے جس کے نام سے بھی ہمارا معاشرہ کچھ عرصہ قبل تک آشنا نہیں تھا… ’’خوشی کے چند لمحات‘‘ کا عجیب نشہ اور لالی پاپ یہ ذرائع ابلاغ لوگوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں کہ وہ ’’مسرت‘‘ کے حصول کے لیے باقی سب کچھ فراموش کر دیتے ہیں وہ یہ تک بھول جاتے ہی کہ ہم نے ایک اللہ کو اپنا خالق، مال، رازق اور رب تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت کا عہد کلمہ طیبہ کو پڑھ کر کیا ہوا ہے اور اس کلمے کے اقرار سے کچھ تقاضے اور کچھ ذمے داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں، ذرائع ابلاغ کا یہ کمال ہے کہ ان ذمے داریوں کی جانب توجہ بھی مبذول کروائی جائے تو فوراً بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا ٹھپا آپ پر لگا کر آپ کو نکو بنا دیا جاتا ہے اور آپ اپنا اصولی موقف چھوڑ کر دفاع پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر مسلط لبرل اور سیکولر عناصر ایک ایسا اسلام متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہیں جس میں حدود و قیود نام کی کوئی چیز نہ ہو، حرام حلال کی تمیز ہو نہ نماز، روزہ، حج اور زکوۃ، کے احکام پر عمل کا مطالبہ کیا جائے اور اسلام میں ’’جہاد‘‘ نام کی کسی چیز کا تو ذکر تک زبان پر نہیں آنا چاہیے… سوال یہ ہے کہ اسلام کیا قرآن و سنت کی تعلیمات کا نام ہے یا ان جدید دانشوروں کی سوچ و فکر اسلام کا مأخذ ہے جس کے مطابق آپ جو چاہیں کریں، جہاں چاہیں جائیں، جیسے چاہیں رہیں اچھلیں، کودیں، ناچیں، گائیں… آپ کی مسلمانیت متاثر ہوتی ہے نہ ہی آپ کے اسلام پر کوئی حرف آتا ہے…!!
اس روشن خیال اسلام کے علم بردار ایک جانب اگر بہت سی دینی اقدار کو ’’عربی رسوم‘‘ قرار دے کر ہمارے معاشرے سے دیس نکالا دینے پر مصر ہیں تو دوسری جانب ایسی ایسی چیزیں پروپیگنڈے کے زور پر یہاں مسلط کی جا رہی ہیں جن کی نہ ہمارا دین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی مشرقی روایات انہیں قبول کرنے پر آمادہ ہیں، مگر یہاں گلوبل ویلیج کے فلسفے کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کہہ کر انہیں اپنانے کا حکم لگایا جاتا ہے کہ پوری دنیا ایک گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ہم ان عالمی رسوم و رواج سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے ہیں… اس کام کے لیے کثیرالقومی ادارے اندھا دھند سرمایا بھی فراہم کرتے ہیں اور رنگ برنگی ترغیبات بھی پیش کی جاتی ہیں پھر ان کی دیکھا دیکھی اور اندھی تقلید میں مقامی اور سرکاری ادارے بھی اپنے قومی وسائل اس بھٹی میں جھونک دیتے ہیں اور گھر پھونک تماشا دیکھ، کے مصداق اپنے ہاتھوں اپنی دینی و ملی روایات اور اقدار کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں… !!!
چودہ فروری سے کئی روز پہلے ہی سے ’’آزاد‘‘ ذرائع ابلاغ ایک ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں اور ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ یعنی ’’یوم بے غیرتی وبے حیائی‘‘ کی آمد آمد کا ایک شور بپا ہو جاتا ہے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے یہ اہم ترین مسئلہ قرار پاتا ہے اور اس کی تیاریوں کی خبریں ایسے ایسے زاویوں اور اتنی کھڑت سے دی جاتی ہیں کہ عید کی بھی کہاں دی جاتی ہوں گی… عید مبارک کے کارڈ تو اب تقریباً متروک ہو چکے ہیں مگر ویلنٹائن ڈے کارڈ، دل کی شکل کے سرخ غبارے، سرخ لباس، گلاب کا سرخ پھول اور ایسی ہی نجانے کیا کیا لغویات چودہ فروری کے حوالے سے اب ہمارے بازاروں اور دکانوں کی زینت بن رہی ہیں… ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ یا ’’عاشقوں کی عید‘‘ کے نام سے متعارف کرائے جانے والے اس تہوار پر نوجوان نامحرم لڑکوں اور لڑکیوں کو باہم اس نام نہاد محبت کے اظہار کی ترغیب دی جاتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور بے حیائی اور بے غیرتی ٹھیرایا ہے یوں یہ ذرائع ابلاغ اس دن کے نام پر کھلم کھلا اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں اور شیطانیت کو فروغ دیتے ہیں… ان ذرائع ابلاغ پر اس دن کے موقع پر خصوصی ڈرامے، پروگرام اشتہارات اور فیچرز تیار کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔ اخبارات میں کئی روز پہلے سے اشتہارات شائع کیے جا رہے ہیں کہ ’’یوم محبت‘‘ پر اپنے چاہنے والوں کے نام اپنے پیغامات انہیں بھیجے جائیں جنہیں اس دن خصوصی اہتمام سے رنگین صفحات پر شائع کیا جائے گا… نام نہاد ’’یوم محبت‘‘ کے پرچارک یہ ذرائع ابلاغ اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور روشن خیال دانشور اس بات کو سراسر بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بار بار مسلمانوں کو ان حرکات سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جن کی ترویج کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کا سورۂ انعام کی آیت 151 میں واضح ارشاد ہے کہ ’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو، خواہ وہ کھلی ہوں یا پوشیدہ‘‘ پھر ارشاد ہوتا ہے‘‘ ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا… کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن سے متعلق تمہیں علم نہیں ہے‘‘ اور سورۃ النور کی آیت نمبر 19 تو شاید ذرائع ابلاغ میں بیٹھے ہمارے روشن خیال دانشوروں کے لیے ہی نازل فرمائی گئی ہے، اگر وہ توجہ اور غور فرمائیں، خالق کائنات اس آیت میں کس قدر واضح اور دو ٹوک پیغام دے رہا ہے کہ ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے‘‘۔ اے کاش ہم قرآن پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے ’’چودہ فروری‘‘ کی ’’عاشقوں کی عید‘‘ کے پر چار کوں کی کس قدر صاف الفاظ میں نشاندہی فرما دی تھی…!!
پوری دنیا میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور دیگر کافروں کے ہاتھوں مسلمان دن رات گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں مگر ہم اس سے آنکھیں بند کر کے جشن منانے میں مصروف ہیں… دھرتی کا بیٹا ہونے کے نام پر ’’راجا داہر‘‘ کو سندھ کا ہیرو قرار دینے والے ایک جانب تو پانچ ہزار سال پرانی موئنجوداڑو کی تہذیب سے رشتہ جوڑ کر فخر محسوس کرتے ہیں تو دوسری جانب نجانے کس طرح ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو بھی اپنانے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہ اس یوم بے حیائی کا آخر سندھ کی دھرتی اور سندھی تہذیب و ثقافت سے کیا تعلق ہے؟ آخر یہ کیسی سندھی ثقافت ہے جس میں سندھ کی مظلوم عورتوں کو راجا داہر سے نجات دلانے والا محمد بن قاسم تو بیرونی حملہ آور قرار پاتا ہے مگر سات سمندر پار کے ویلنٹائن کی ایجاد کردہ رسم بے حیائی کو اپنانے اور ڈھٹائی سے آگے بڑھانے میں ذرا شرم و حیاء محسوس نہیں کی جاتی ہے…؟؟
ایک اور طرفہ تماشا اس حوالے سے یہ بھی ہے کہ ایک جانب تو عوام پر آئے روز نت نئے ٹیکس اس لیے مسلط کیے جا رہے ہیں کہ ملک کھربوں ڈالر کا مقروض ہے اور مزید قرضوں کے حصول کے لیے عالمی ساہوکار اداروں کی ظالمانہ شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے مگر دوسری جانب ’’خوشی کے چند لمحات‘‘ کے نام پر قومی خزانے کے اربوں روپے بسنت، میلوں ٹھیلوں اور ’’یوم بے حیائی‘‘ جیسے خود ساختہ اور فضول تہواروں پر بے دریغ ضائع کیے جا رہے ہیں اور نام نہاد خوشی کے حصول کے نام پر ہر اچھے برے، جائز ناجائز کام کو روا رکھا جا رہا ہے… کوئی ہے جو ان حکمرانوں کا ہاتھ پکڑ سکے… ان سے پوچھ سکے کہ غریب اور مقروض قوم کے اربوں روپے عیاشی اور فحاشی پر اڑانے کا اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟؟