مزدور مسکان خان جیسی جرأت کا مظاہرہ کرکے اپنی محرومیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں

788

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) مزدور مسکان خان جیسی جرأت مظاہرہ کرکے اپنی محرومیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں‘ مسلم طالبہ نے انتہا پسند ہندوئوں کو للکارکر ثابت کردیا کہ عورت نازک، کمزور اور بے شعور نہیں ہے‘ اپنے حق کے لیے کھڑے رہنے کا درس دیا‘ بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کیا‘ بھارتی مسلمان اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے ہی انتہا پسندی کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،ریلوے پریم یونین کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات خالد محمود چودھری، نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکرٹری محمد قاسم جمال،مزدور رہنما مرزا مقصود اور پی آئی اے مزدور ایکشن کمیٹی کے رہنما محمد عارف خان روہیلہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’بھارتی ریاست کرناٹک کی مسلم طالبہ مسکان خان کی بہادری سے محنت کشوں کو کیا سبق ملتا ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ مسکان نے پوری انسانیت کو اپنے حق کے لیے کھڑے رہنے کا درس دے کر بھارت کے سیکولرازم کا پردہ چاک کیا ہے اور اس کی آڑ میں بدترین ہندوفاشزم کا بھانڈا پھوڑ دیا‘ پردہ اسلام کا شعار ہے‘ دنیا کی کسی طاقت کو اسلامی شعائر پر پابندی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ دنیا بھر کے انسان آگے بڑھ کر مسکان جیسی دلیر بیٹی کے ساتھ کھڑے ہو کر انسانیت دوست ہونے کا ثبوت دیں اور سیکولرازم کی آڑ میں کسی مذہب کے خلاف اپنا بغض و عناد نکالنے والے ہندو فاشزم کو بے نقاب کریں‘ کرناٹک ہائی کورٹ کا طالبات کو پردے سے منع کرنے کا حکم اور بھارتیعدالت عظمیٰ کا مسلم طالبات کے مقدمے کو نہ سننے کا حکم ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور اس کا ہر ادارہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف متحد ہے‘ مزدوروں کے لیے مسکان کا جرأت مندانہ طرزِ عمل اور حق کے لیے کھڑے ہوجانا ایک مثال ہے‘ اس وقت مزدور جن محرومیوں کا شکار ہیں وہ ان سے نجات کے لیے مسکان جیسی جرأت اختیار کریں تو پورا معاشرہ اُن کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے معاونت کرے گا۔ خالد محمود چودھری نے کہا ہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک میں باحجاب طالبہ مسکان خان نے انتہا پسند ہندوئوں کے سامنے جذبہ ایمانی سے نعرہ تکبیر بلند کرکے پوری مسلم امہ کا سر فخر سے بلند کردیا ہے‘ بھارتی حکومت انتہا پسند ہندوئوں کو لگام ڈالے‘ آج پوری دنیا مسکان خان کے ساتھ کھڑی ہے‘ بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں پر زندگی کا گھیرا تنگ کر رکھا ہے‘ سیکولر ملک کے دعوے کرنے والا بھارت در حقیقت ایک انتہا پسند ملک ہے جہاں مسلمانوں کے مذہبی و انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں‘ بھارت سمیت پوری دنیا باحجاب خاتون کو کبھی کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے‘ مسکان خان کی بہادری اور جذبہ ایمانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔محمد قاسم جمال نے کہا کہبھارت کا سیکولر ازم گنگا جمنا میں غرق ہوگیا ہے‘ تمام اقلیتوں کے لیے بھارت ایک جہنم بن گیا ہے‘ مسکان نے ظلم کے خلاف کھڑے ہوجانے اور ڈٹ جانے کا پیغام دیا ہے‘ مسکان نے پوری امت میں بیداری کی لہر پیدا کی ہے اور پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے‘ دنیا تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی ہے‘ اکھنڈ بھارت اب ٹوٹ جائے گا۔ مرزا مقصود نے کہا کہ طالبہ مسکان نے بھارتی مذہبی بنیاد پرستوں کو کھلے عام للکارکر ثابت کردیا کہ عورت نازک، کمزور اور بے شعور نہیں ہے بلکہ وہ بہادر، بے خوف اور باشعور ہے ‘ اگر خواتین مسکان سے سیکھتے ہوئے اپنے خلاف ہر قسم کے استحصال کے خلاف ایسی ہی جرأت کا مظاہرہ کریں تو حالات دنوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں‘ اسی طرح مودی حکومت نے بھارتی مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف ظلم کی جو ریت ڈالی ہے‘ اس نے بھارتی جمہوریت کا بھانڈا تو بیچ چوراہے پر پھوڑا ہی دیا ہے لیکن نہتے مسلمانوں اور عیسائیوں پر جو بیت رہی ہے اس کی مزاحمت بھی ضروری ہے‘ عالمی سامراج اپنے معاشی مفادات کے بوجھ تلے ان مظالم کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے‘ امریکا اور یورپ کی مفاد پرستانہ سوچ اور ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت نے کشمیر پر بھی اپنا قبضہ مستحکم اور اس کو مقبوضہ کیمپوں تبدیل کیا ہے‘ تمام بنیادی انسانی حقوق پر پابندیاں ہیں‘ ان حالات میں نہتی مگر جری، نڈر، اور بہادر مسکان نے مظلوموں کو ظالم کا ہاتھ روکنے کا راستہ دکھایا ہے۔محمد عارف خان روہیلہ نے کہا ہے کہ کرناٹک میں مسلم لڑکی نے آر ایس ایس کے نعروں کے جواب میں نعرہ تکبیر بلند کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کا قیام دوقومی نظریے کی بنیاد پر ہوا ہے‘ آج بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسند ہندوئوں کے رویے نے وہاں رہنے والے مسلمانوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے ہی وہ انتہاپسندی کا مقابلہ کرسکتے ہیں‘ پاکستان کی عوام کو اس موقع پر بھارت میں موجود مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے‘ ہم سب پاکستانی مسلمان اور محنت کش عوام مسکان کے ساتھ کھڑے ہیں۔