اسلام آباد:پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اورسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ یہ نہیں بتا سکتے کہ کب تحریک عدم اعتماد لائیں گے، جب مجھے یقین ہو گا کہ172ارکان ہیں تو میں عدم اعتماد دائر کردوں گا۔مجھے100فیصد یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔ انشاءاللہ 172سے زیادہ ہی ارکان ہوں گے۔ جو جماعت تحریک عدم اعتماد میں نرمی برتے گی اوراس کے ارکان عدم اعتماد میں پیش نہیں ہو ں گے اور عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی تواس ملک کے عوام اس جماعت کو معاف نہیں کریں گے۔ کسی کی زندگی اور صحت پر بحث نہ ہی کریں تو بہتر ہے،میاں محمد نواز شریف کی جو، جو رپورٹس چاہیں مانگ لیں کہ یہ، یہ ٹیسٹ کرواکربھیجیں۔ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے ماحول بن گیا کہ نہیں یہ وقت بتائے گا ہم اپنا ہوم ورک کریں گے۔ آج بیساکھیاں عوام کے دباﺅ سے ہٹیں گی، آج شاید سیاست میں پہلا موقع ہے کہ میڈیا بھی اور لوگ بھی اپوزیشن کو کہہ رہے ہیں کہ آپ کام نہیں کررہے اورآپ اس حکومت کو ہٹائیں،ایسامیں نے اپنی35سالہ سیاست میں نہیں دیکھا۔ جوسیاسی جماعت اس عدم اعتمادکے ماحول میں کسی کو دھوکہ دے گی تواس کی جگہ ملک کے اندر نہیں رہے گی جو جماعت تحریک عدم اعتماد میں نرمی برتے گی اوراس کے ارکان عدم اعتماد میں پیش نہیں ہو ں گے اور عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی تواس ملک کے عوام اس جماعت کو معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد میں کھڑے ہو کر ووٹ دینا ہوتا ہے، آپ چھپ کر جاکرڈبے میں پرچی نہیں ڈال سکتے۔ ہم تحریک عدم اعتماد کے لئے اپنی تیاری کررہے ہیں اور10ووٹوں کا فرق ہے۔ عدم اعتمار پاکستان پیپلز پارٹی، میری اور ملک کی ضرورت ہے اورعوام کا دباﺅ ہے۔ میں کرکٹ کی پچ پر فٹ بال نہیں کھیل سکتا، جب ایک ملک کا ماحول ہی غیر آئینی ہوتوآپ اس پرآئینی عمل نہیں کرسکتے، جب غیر آئینی مداخلت ہٹے گی تو خود ہی راستہ بن جائے گا، بیساکھیاں ہٹیں تو یہ24گھنٹے کی بات بھی نہیں ہے۔یہ نہیں بتا سکتے کہ کب عدم اعتماد لائیں گے، جب مجھے یقین ہو گا کہ172ارکان ہیں تو میں عدم اعتماد دائر کردوں گا۔مجھے100فیصد یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔ عدم اعتماد کیا ہی وقت جاتا ہے جب آپ کو یقین ہو کہ یہ کامیاب ہو گی۔جہانگیر خان ترین سے بھی بات کرلیں گے جو بھی اس نیک کام میں مدد کرسکتا ہے اس سے بات کر لیں گے۔ ہر قیمت پر عدم اعتماد نہیں ہوتا، آپ کو سیاست میں کچھ اصول رکھنے پڑتے ہیں۔انشاءاللہ 172سے زیادہ ہی ارکان ہوں گے۔تحریک عدم اعتماد میں حکومت ووٹ نہیں دیتی بلکہ اپوزیشن ووٹ دیتی ہے ، حکومت نے وہاں ایک آدمی بھی نہیں لانا جس شخص اور جماعت نے آج دھوکہ دیا پھر اس کی سیاست میں جگہ نہیں ہو گی۔جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی اور نئی حکومت نہیں بنے گی تو اسمبلیاں خود بخود ٹوٹ جائیں گی اور90روز کے لئے نگران حکومت بنے گی جو الیکشن کرائے گی۔ نہ وزیر اعظم ہو گا اور نہ اپوزیشن لیڈر ہو تو پھرعدالت ہی نگران سیٹ اپ مقررکردے گی۔ وفاق میں نئے انتخابات ہو جائیں گے اور صوبائی اسمبلیاں چلتی رہیں گی اوروہاں بعد میں الیکشن ہو جائیں گے۔ میاں محمد شہباز شریف کو اگر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی بلکہ اس حکومت کی اورساکھ ختم ہوجائے گی۔ شہبازشریف پہلے بھی دو دفعہ سواسال جیل میں رہ کرآئے ہیں ، آپ کو کچھ ملا ہے، اگرآپ نے یہی کھیل کھیلنے ہیں تو کھیلتے رہیں۔ شہباز شریف کو اگر گرفتار بھی کیا جاتا ہے تو پھر بھی عدم اعتماد ہو جائے گی۔