تعصب کہاں کہاں ؟

284

مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور حکومت میں دیگر ادارے کس حد تک کام کررہے تھے اس پر تو یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک محکمہ ایسا تھا جس کی کارکردگی نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ ریلوے کی وزارت خواجہ سعد رفیق کو تفویض ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بلند مقام حاصل کیا اور جب موجودہ حکومت نے انہیں اور ان کے بھائی کو مختلف الزامات کے تحت پابند سلاسل کیا تو مجھے خاصا دکھ ہوا۔ ویسے خود بھی خواجہ سعد رفیق عدالتوں میں یہ کہتے سنے گئے کہ میری کارکردگی تو ایسی رہی کہ جس پر شاباشی دی جانی چاہیے اور یہ بات خاصی حد تک درست تھی۔ کیوں کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غلام احمد بلور نے ریلوے کی وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی اسے تباہی سے دوچار کرنا شروع کیا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ کراچی سے اوکاڑہ تک کا محض 16 گھنٹے کا سفر 40 گھنٹے میں طے ہوا اور وہ بھی اس حال میں کہ ٹرین میں نہ پنکھے چلتے تھے اور نہ باتھ روموں میں پانی تھا، یہی نہیں اس زمانے کی بات ہے کہ میں ایک مرتبہ کوئٹہ جانے کے لیے کراچی کے سٹی اسٹیشن پہنچا تو دیکھا کہ پلیٹ فارم پر خوشحال خان خٹک ایکسپریس کھڑی ہے۔ جب میں نے انکوائری آفس سے بولان میل کی بابت معلوم کیا تو بتایا گیا کہ وہ بھی اسی پلیٹ فارم پر آگے موجود ہے اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ایک انجن بولان میل اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو لے کر جیکب آباد تک گیا اور وہاں سے یہ دونوں ٹرینیں الگ الگ اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ واپسی پر میں نے گارڈ سے واش روم میں پانی نہ ہونے کی شکایت کی تو بولے شکر ادا کریں کہ ٹرین چل رہی ہے اور پھر کئی مقامات پر ٹرین رک جاتی۔ ریلوے کا عملہ انجن میں کچھ کھڑپھڑ کرتا اور پھر 3,4 گھنٹے ٹرین چلتی، یوں 10 گھنٹے کی تاخیر سے ٹرین کراچی پہنچی۔
غلام احمد بلور کہا کرتے تھے کہ جن ملکوں میں ٹرین نہیں چلتی تو کیا وہاں لوگ سفر نہیں کرتے۔ کئی ٹرینیں بند ہوئیں وہ تو ان کا بس نہ چلا ورنہ ٹرینوں کے ڈبے اور پٹڑیاں بیچ کر ریلوے کے نظام کو ختم ہی کردیتے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر اگلی بار پی پی پی کی حکومت آئی تو میں ایک بار پھر ریلوے کی وزارت لوں گا۔ خیر 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی ہوئی اور ریلوے کی وزارت خواجہ سعد رفیق کو سونپی گئی۔ انہوں نے پہلے ریلوے میں موجود بگاڑ کو کم کرنے کی کوشش کی، ٹرینوں کو بحال کیا اور پھر ٹرینوں کی بروقت آمد اور روانگی کو یقینی بنایا۔ یہی نہیں ان کے دور میں ریلوے لائنوں کی تبدیلی اور اسٹیشنوں کی ازسرنو تعمیر اور تزئین و آرائش بھی شروع ہوئی جس کا منہ بولتا ثبوت رائیونڈ، اوکاڑہ، بہاولپور اور پنجاب میں موجود دیگر اسٹیشنوں کو دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
میں یہ سمجھتا تھا کہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے میں رنگ، نسل یا تعصب سے بالاتر ہو کر کام کیا ہوگا مگر جب بغور جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ موصوف کے دل و دماغ میں عصبیت دوبالا تھی ان کے کاموں کا دائرہ صرف پنجاب تک ہی محدود تھا جن اسٹیشنوں کی تعمیر یا تزئین و آرائش ان سب کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ریلوے لائنوں کی تبدیلی بھی پنجاب تک ہی محدود رہی، سندھ کا سب سے بڑا روہڑی اسٹیشن آج بھی اسی حالت میں ہے جیسا کہ ایک عشرے قبل تھا، یہاں کسی قسم کی تعمیر و ترقی تو کجا ذرا بھی بہتری کی کوشش نہ کی گئی۔ یہی نہیں جب گزشتہ کچھ عرصے سے ٹرینوں کے حادثات بڑھے تو یہ بات بھی سامنے آئی کہ صادق آباد سے ٹنڈوآدم تک ریلوے لائن پر سو سے زیادہ مقامات پر جوڑ لگے ہوئے ہیں اور یہ بات دلچسپ ہے کہ صادق آباد سے ٹنڈوآدم تک کا اکثر ٹریک سندھ کی حدود میں آتا ہے۔
بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے وزرا تعصب کی عینک لگائے انہی علاقوں پر توجہ دیتے ہیں جہاں کا ووٹ بینک ہوا کرتا ہے، حالاں کہ حلف اٹھاتے وقت برملا یہ کہتے ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی بھلائی کو مقدم رکھوں گا۔ کاش! ارباب اختیار شعوری طور پر اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں تو کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔