ریاستی اْمور میں فوج کا کردار
انتظامی اْمور اور مملکتی نظام (Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔
فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔
اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔
علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم (Administrators Civil)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔
فوج کا اس میدان میں اْترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔
دْنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیے ہیں۔ (ترجمان القرآن، جنوری 1962)
٭…٭…٭
اصحاب قبور سے درخواست دعا
کسی بزرگ سے اپنے حق میں دعائے خیر کی درخواست کرنا بجائے خود کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔ آدمی خود بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ سکتا ہے، اور دوسروں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے دعا کرو۔ لیکن وفات یافتہ بزرگوں کی قبروں پر جا کر یہ درخواست پیش کرنا معاملے کی نوعیت کو بالکل ہی بدل دیتا ہے۔ قبر پر یہ بات کہنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اپنے دل میں، یا چپکے چپکے ایسا کہیں، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ان بزرگوں کی سماعت کی شان وہی کچھ سمجھ رہے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی ہے کہ: ’’تم اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے، وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے‘‘۔ (الملک: 13)
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ زور زور سے ان ولی اللہ کو پکار کر یہ بات کہیں۔ اس صورت میں اعتقاد کی خرابی تو لازم نہ آئے گی مگر یہ اندھیرے میں تیر چلانا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پکار رہے ہوں اور وہ نہ سن رہے ہوں۔ کیوں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا سماع تو ممکن ہو، مگر ان کی روح اس وقت وہاں تشریف نہ رکھتی ہو، اور آپ خواہ مخواہ خالی مکان پر آوازیں دے رہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روح تشریف فرما تو ہو مگر وہ اپنے رب کی طرف مشغول ہوں، اور آپ اپنی غرض کے لیے چیخ چیخ کر ان کو الٹی اذیت دیں۔ دنیا میں کسی نیک آدمی سے دعا کرانے کے لیے آپ جاتے ہیں تو مہذب طریقہ سے پہلے ملاقات ہوتی ہے پھر آپ عرض مدعا کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ مکان کے باہر کھڑے ہو کر بس چیخنا شروع کردیا۔ کچھ پتا نہیں کہ اندر ہیں یا نہیں ہیں۔ ہیں تو آرام میں ہیں یا کسی کام میں مشغول ہیں، یا آپ کی بات سننے کے لیے خالی بیٹھے ہیں۔
اب غور کیجیے کہ وفات یافتہ بزرگوں کے معاملے میں جب ہمارے لیے ان کے احوال معلوم کرنے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے تو ان کے مکانوں پر جا کر اندھا دھند چیخ و پکار شروع کردینا آخر کس معقول آدمی کا کام ہوسکتا ہے۔ دعا کروانے کا یہ طریقہ اگر قرآن و حدیث میں سکھایا گیا ہوتا، یا اس کا کوئی ثبوت موجود ہوتا کہ صحابہؓ کے عہد میں یہ رائج تھا، تب تو بات صاف تھی۔ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب وہاں اس کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا تو آخر ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی ایک صورت تو صریحاً صفات الٰہی سے ٹکراتی ہے، اور دوسری صورت علانیہ غیر معقول نظر آتی ہے۔